پاکستان میں عالمی وبا کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا مکمل لاک ڈاؤن دو ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہا جس کے دوران ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی مکمل طور پر بند رہا، بعدازاں سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران کچھ کاروبار تو کھولے گئے مگر دیگر تفریحی مقامات سمیت کراچی کا سی ویو ساحل تا حال بند ہے۔
سی ویو ساحل کی جانب جانے والے راستے کئی مقامات پر شپنگ کنٹینرز اور دیگر رکاوٹوں کی مدد سے بند کیے گئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کی جانب سے سی ویو پر 'ساحل ترقیاتی منصوبہ' کے ذریعے ایک بڑے حصے کو عوام الناس کے لیے بند کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے، تاہم یہ منصوبہ عوام کو ساحل تک مفت جانے کے ان کے بنیادی حق سے محروم کرسکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے حاصل کردہ اس منصوبے کے ماسٹر پلان کے مطابق سی ویو ساحل پر واقع نشانِ پاکستان سے چنکی منکی پارک کے درمیان تقریباً 21 ایکڑ پر بنایا جانے والا یہ 'ترقیاتی منصوبہ' ساحل کی ریت پر تقریباً ایک کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
سی ویو پر جسے کلفٹن ساحل بھی کہا جاتا ہے، سی بی سی کی جانب سے مجوزہ اس منصوبے میں سات ریسٹورنٹس، 15 ٹک شاپ، 15 سٹالز، جاگنگ ٹریکس، لوگوں کی چہل قدمی کا راستہ، پانچ واچ ٹاور کے ساتھ بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور سرسبز احاطے کے ساتھ سمندر کے پانی کے اوپر بیچ ڈیک بھی بنائے جائیں گے۔
لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی بی سی انتظامیہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہتی ہے اور منصوبے کے پہلے مرحلے پر کام بھی شروع کیا جاچکا ہے۔
اس مہنگے منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد اس پر لگنے والے ٹکٹ کے بعد سی ویو پر آنے والوں، جن میں اکثریت غریبوں کی ہے، کے لیے ٹکٹ لے کر جانا ممکن نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ساحل تک مفت عوامی رسائی بھی بند ہوجائے گی اور یہ صرف طبقہ اشرافیہ کے لیے مختص ہوجائے گا۔
خاموشی سے سرٹیفکیٹ کا اجرا
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے لیے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) نے کرونا لاک ڈاؤن کے دوران خاموشی سے قانونی سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا ہے۔
سندھ میں ماحول کی بقا کی نگرانی کرنے اور کسی بھی بڑے منصوبے کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کے متعلق جائزہ لے کر سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے ادارے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے اتنے بڑے منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص یعنی انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ یا ای آئی اے کرنے کی بجائے ابتدائی ماحولیاتی معائنہ یعنی انیشل انوائرمنٹل ایگزامینیشن یا آئی ای ای کرکے ایسے متنازع منصوبے کو شروع کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
ماحولیاتی اثرات کی تشخیص یعنی انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ یا ای آئی اے کرانے کی صورت میں سیپا قانونی طور پر پابند تھی کہ وہ ایک عوامی شنوائی بلائے جس میں آنے والے عام شہری اگر چاہیں تو اس منصوبے کو مکمل طور پر رد کرسکتے ہیں یا پھر اگر چاہیں تو کوئی ترمیم بھی کرواسکتے ہیں۔ مگر اس منصوبے کے لیے ایسا نہیں کیا گیا اور شہریوں کو منصوبے کے جائزے کے عمل میں حصہ لینے کے قانونی موقع سے محروم کردیا۔
اپنے ادارے کے اس متنازع فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل نے کہا: 'ہمارے ادرے کے قوانین کے تحت کسی بھی منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص یعنی انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ یا ای آئی اے اس صورت میں کی جاتی ہے جب وہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہو اور جس کے شروع ہونے سے ماحول پر بڑے پیمانے پر کوئی اثرات پڑنے کا خدشہ ہو۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نعیم احمد مغل نے بتایا: 'یہ تو ایک چھوٹا سا منصوبہ ہے اور وہ بھی ساحل کو خوبصورت بنانے کا اور وہ بھی جو بھی سمندر کے پانی پر نہیں بلکہ اس جگہ شروع کیا جارہا ہے، جہاں ہر وقت ریت اڑتی ہے۔ جب یہاں چہل قدمی کے راستے اور بچوں کے جھولے لگیں گے تو اس کا ماحول پر تو اچھا ہی اثر ہوگا، اس لیے ہم نے ای آئی اے کرنے کی بجائے ابتدائی ماحولیاتی معائنہ یعنی انیشل انوائرمنٹل ایگزامنیشن یا آئی ای ای کرکے سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔'
سندھ ہائی کورٹ کے ماحولیاتی وکیل زبیر احمد ابڑو اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور ڈی ایچ اے کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ کسی بھی بڑے منصوبے کو ماحولیاتی اثرات کی تشخیص یعنی ای آئی اے کے لیے پیش نہیں کرتے بلکہ بڑے منصوبے کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ کر ابتدائی ماحولیاتی معائنہ پیش کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں اور بعد میں ان چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو ملا کر دوبارہ بڑے منصوبے کو بحال کرلیتے ہیں۔
جب نعیم احمد مغل سے پوچھا گیا کہ مجوزہ منصوبے والی زمین آئین پاکستان کے تحت حکومت سندھ کی ملکیت ہے نہ کہ ڈی ایچ اے یا کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی اور اس صورت میں سرٹیفکیٹ جاری کرکے کیا سیپا اس زمین کی حیثیت کو قانونی تحفظ فراہم نہیں کررہی؟ تو انہوں نے جواب دیا: 'زمین کا قانونی وارث سندھ ریوینیو ڈپارٹمنٹ ہے۔ اگر انہیں کوئی اعتراض ہوگا تو وہ عدالت میں جائیں گے۔ ہمیں صرف اس منصوبے کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کا جائزہ لینا تھا جو ہم نے لیا اور سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔'
اس سوال پر کہ منصوبہ مکمل ہونے پر داخلہ فیس کے باعث کیا عام لوگوں کا سمندر تک جانے کا حق متاثر نہیں ہوگا؟ نعیم احمد مغل نے جواب دیا: 'اگر ایسا کیا گیا تو ہم سرٹیفکیٹ منسوخ کرسکتے ہیں۔ ہم نے ان معاملات پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئندہ ملاقات میں ہم یہ نکات ڈی ایچ اے کے سامنے رکھیں گے۔'
ساحل کی زمین کس کی ملکیت ہے؟
1981 میں وفاقی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب سے قائم کردہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کے مطابق سندھ اور بلوچستان سے متصل پاکستان کا ساحل 990 کلومیٹر لمبا ہے جو مشرق میں بھارتی سرحد اور مغرب میں ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے جبکہ پاکستان کے پاس دو لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر کا خصوصی معاشی زون یعنی ایکسکلوسو اکنامک زون بھی ہے۔ اس کے علاوہ 50 ہزار مربع کلومیٹر کونٹینینٹل شیلف کا اضافی علاقہ ملا کر پاکستان کا سمندری علاقہ ملک کے کل زمینی رقبے کا 30 فیصد ہے جسے پاکستان کا پانچواں صوبہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے آئین کے تحت صوبوں میں زمین کا سرکاری طور وارث اس صوبے کا محکمہ ریوینیو ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے جب سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو قاضی شاہد پرویز سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ زمین کس کی ملکیت ہے اور کیا ڈے ایچ اے یا کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن ساحل کی ریت پر ایسے منصوبے قانونی طور پر بنانے کے مجاز ہیں؟ تو قاضی شاہد پرویز نے اس معاملے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
تاہم ان کے ایک ماتحت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قاضی شاہد پرویز پر عدالتوں میں کرپشن کے متعدد کیس زیر سماعت ہیں اس لیے وہ میڈیا سے کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
وکیل زبیر احمد ابڑو نے آئین پاکستان کی دفعہ 172 کی شق 1 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'آئین کے مطابق سمندر اور سمندری پانی کے نیچے آئی ہوئی ہر قسم کی زمین وفاقی حکومت کی ملکیت ہے جبکہ ہر قسم کی خشک زمین اس صوبے کی ملکیت ہے۔'
دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزیر برائے محکمہ ریوینیو اور ریلیف مخدوم محبوب زمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: 'آئین کی دفعات 172 اور 173 کے مطابق وہ تمام زمینیں صوبے کی ملکیت ہوں گی جو کسی فرد، ادارے، اتھارٹی یہاں تک کہ وفاقی حکومت کے نام نہ ہوں اور ساحل کا یہ حصہ کسی کو بھی الاٹ نہیں کیا گیا ہو۔'
ان کے مطابق: 'ہر قسم کی خشک زمین، چاہے وہ سمندر میں مٹی ڈال کر ری کلیم کی گئی ہو یا قدرتی طور پر سمندر کا پانی خشک ہوجانے کی صورت میں ظاہر ہوئی ہو یا سمندر میں صوبے کے حدود میں واقع جزائر ہوں، سب صوبے کی ملکیت ہیں۔'
مخدوم محبوب زمان نے کہا کہ 'سندھ حکومت کراچی میں سیاحت کے فروغ کی اہمیت سے واقف ہے، مگر میرے خیال میں کوئی بھی ادارہ سی ویو کو عوام الناس کے لیے بند کرنے سے گریز کرے۔ ہم جلد ہی اپنے خیالات سے متعلقہ اداروں کو مطلع کریں گے۔'
عوام کے لیے قسطوں میں بند کیا جانے والا سی ویو ساحل
اگر آپ بلاول ہاؤس کے سامنے والی سڑک سے جنوب کی جانب چلیں تو تھوڑے فاصلے پر سڑک کے اختتام پر سمندر شروع ہوجائے گا۔
گوگل ارتھ کی مدد سے دیکھنے پر اس جگہ پر ایک بہت بڑا گٹر نالا سڑک کے نیچے سے نکل کر سمندر میں داخل ہو رہا ہے، اس جگہ سے سمندر کی جانب داخل نہیں ہوا جاسکتا۔
اب اگر آپ تھوڑا اور جنوب کی جانب بڑھیں تو آپ کے دائیں ہاتھ پر سمندر اور بائیں ہاتھ پر تقریباً ایک کلومیٹر طویل کلفٹن بیچ پارک آجائے گا۔ یہ ایک چاردیواری والا پارک ہے، جس میں داخلہ گیٹ کے ذریعے ہوسکتا ہے لیکن سی بی سی کی مرضی ہے کہ جب چاہے وہ گیٹ کھولے یا نہ کھولے۔ آپ اس جگہ سے بھی سی ویو کی طرف نہیں جاسکتے۔
اس کے بعد ڈولمن شاپنگ مال کی بلڈنگ آجاتی ہے جس کا منصوبہ پہلے ایک چھوٹے حصے پر بنایا گیا تھا مگر بعد میں ڈولمن مال سے متصل تین اور بڑی عمارتیں بناکر اور بعد میں ان کی پارکنگ کے نام پر ایک بڑے حصے کو بند کردیا گیا۔ اس وقت ڈولمن مال اور اس سے ملحقہ عمارتیں اور پارکنگ ایریا آدھے کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
ڈولمن مال کے عقب میں واقع سمندر کے اس حصے کو خوانچہ فروش ’چھوٹا کنارہ‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ مگر امکان ہے کہ غریبوں کے سی ویو ساحل، چھوٹا کنارہ کو بھی ڈی ایچ اے اور سی بی سی انتظامیہ بہت جلد بند کرسکتی ہے۔
چھوٹا کنارہ میں داخل ہونے کا واحد راستہ کلفٹن بیچ پارک اور ڈولمن شاپنگ مال کے درمیان تقریباً 35 میٹر چوڑی ایک جگہ ہے، اسے بھی آدھا بند کردیا گیا ہے اور صرف آٹھ میٹر کا داخلی راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔
چھوٹے کنارے پر موجود ایک خوانچہ فروش غنی بھائی کے مطابق اس واحد داخلی راستے پر بھی ایک دن دیوار لگاکر اسے بند کردیا جائے گا۔
ڈولمن مال اور اس سے متصل عمارتوں کے بعد ایک چھوٹا سا حصہ خالی تھا مگر اس حصے کو بھی مختلف رکاوٹیں لگاکر بند کردیا گیا، جس کے مکڈونلڈ اور اس کے ساتھ 'نشان پاکستان' تعمیر کیا گیا ہے۔
'نشان پاکستان' ابتدا میں ایک کھلا ہوا عوامی پارک تھا مگر بعد میں اسے چاردیواری اور گیٹ لگا کر داخلہ ٹکٹ سے مشروط کردیا گیا۔
پارک میں تعینات سی بی سی کے سکیورٹی گارڈ ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'سی بی سی انتظامیہ نے کچھ عرصے کے لیے یہاں عام لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔'
آدھے کلومیٹر پر پھیلے مکڈونلڈ اور 'نشان پاکستان' سے بھی عام شہری سمندر کی جانب داخل نہیں ہوسکتے۔
سی بی سی انتظامیہ 'ساحل ترقیاتی منصوبہ' نشان پاکستان سے چنکی منکی تفریحی پارک کے درمیان تقریباً ایک کلومیٹر پر بنا رہی ہے اور اس منصوبے کے بعد سی ویو ساحل کے اس حصے سے بھی عوام الناس سمندر کی طرف نہیں جاسکتے۔
چنکی منکی تفریحی پارک سے ولیج ریسٹورنٹ کے درمیان ڈیڑھ کلومیٹر کا علاقہ وہ واحد جگہ ہے جو اس وقت کئی کلومیٹر پر پھیلے سی ویو ساحل پر سمندر تک عوام الناس کی رسائی کے لیے کھلی ہوئی ہے۔
مگر اس حصے میں بھی چار چھوٹی عمارتوں کو بڑی عمارتوں میں تبدیل کیا جارہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی بی سی انتظامیہ اس حصے میں مزید تعمیرات کے منصوبے بنائے ہوئے ہے۔
ولیج ریسٹورنٹ کے برابر کچھ عرصہ قبل کیپٹن فرحان علی پارک تعمیر کیا گیا، بعد میں اس پارک کے بعد والے ساحل کے حصے پر مٹی ڈال کر ڈی ایچ اے فیز 8 ایکسٹینشن میں تبدیل کرکے ساحل کے آخر تک کے حصے کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ اب وہاں پلاٹنگ کرکے سڑکیں تعمیر کردی گئی ہیں اور جلد ہی وہاں گھروں کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔
فیز 8 ایکسٹینشن کے اختتام پر دبئی کی تعمیراتی کمپنی عمار کی جانب سے بلند و بالا پرل اینڈ ریف ٹاورز تعمیر کیے گئے ہیں جہاں ایک فلیٹ کی قیمت کروڑوں میں بتائی جاتی ہے۔
کراچی میں سی ویو ساحل کی کیا حیثیت ہے؟
ماضی میں ٹھنڈی ہواؤں کے باعث مشہور سی ویو ساحل کو ہوا بندر بھی کہا جاتا تھا۔ کراچی کی تاریخ کے محقق گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’سندھ کے سمندری جزائر‘ میں لکھا ہے: 'انگریز دور میں موجودہ کلفٹن ساحل ایک جزیرہ تھا جو کراچی شہر سے ایک لکڑی کے پل کی مدد سے جڑا ہوا تھا۔ اب یہ جزیرہ نہیں رہا۔ اس وقت مقامی لوگ وہاں موجود ہندومت کے دیوتا شیو کے قدیم مندر رتنیشور مہادیو کے باعث اسے مہادیو جزیرے کے نام سے پکارتے تھے۔ بعد میں لوگ اس مقام پر چلنے والی ٹھنڈی ہواؤں کے باعث اس ساحل کو ہوا بندر کے نام سے پکارنے لگے، مگر انگریز دور میں اس کا نام تبدیل کردیا گیا۔'
گل حسن کلمتی کے مطابق انگریزوں نے اس ساحل کو سندھ کے فاتح اور بعد میں گورنر سندھ رہنے والے چارلز نیپیئر کے آبائی گاؤں برطانوی ساحلی شہر برسٹل کے ایک قصبے کلفٹن سے منسوب کردیا تھا۔
کراچی میں وہ واحد مقام جہاں شہر کے تمام تفریحی مقامات کی نسبت سب سے زیادہ شہری گھومنے جاتے ہیں وہ سی ویو ساحل ہے۔
سی ویو ساحل کراچی والوں کے لیے اجتماعی تہوار منانے کی بھی جگہ ہے۔ عید ہو یا بقر عید، 23 مارچ ہو یا 14 اگست یا پھر 31 دسمبر کو نئے سال کی آمد، کراچی میں رہنے والے ہر نسل، مذہب، فرقے اور لسانی گروہ کے لوگ اسی ساحل پر اجتماعی خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچی آبادیوں میں مقیم شہر کی 30 فیصد سے زائد آبادی کے لیے گرمی سے بچاؤ اور سستی تفریح کے لیے بھی یہ ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے حکومت سندھ کے ادارے سندھ کچی آبادی اتھارٹی سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں کل 575 کچی آبادیاں ہیں۔ جن میں سے سرکاری طور پر تسلیم کی جانے والی یعنی نوٹیفائیڈ 469 کچی آبادیوں کے علاوہ 106 ایسی کچی آبادیاں ہیں جو شہر میں موجود تو ہیں مگر حکومت نے ابھی تک ان آبادیوں کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔
چوں کہ یہ آبادیاں سرکاری طور پر غیر قانونی سمجھی جاتیں ہیں اس لیے انہیں پانی، بجلی، گیس اور نکاسی آب کے نظام سمیت بنیادی سہولیات سرکاری طور پر نہیں دی جاتیں۔ بنیادی ضروریات سے محروم ان افراد کے لیے گرمیوں میں سی ویو ساحل بہترین پناہ گاہ ہے، جہان وہ مفت میں سمندر کی ٹھنڈی ہوا کا مزا لیتے ہیں اور بچے سمندری میں نہا کر خوش ہوجاتے ہیں۔
اشرافیہ کا سی ویو؟
صوبائی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما اور رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ سی ویو ساحل کو اشرافیہ کی بجائے عوام الناس دوست بنانا چاہیے۔ 'کراچی جیسے بڑے شہر میں سی ویو ساحل ایک ایسی جگہ ہے جہاں غریب اور متوسط طبقے کا کوئی بھی فرد اپنی فیملی کے ساتھ بہت ہی کم قیمت میں ایک اچھی شام گزار سکتا ہے۔ اس لیے اس جگہ کو ان طبقات کے لیے مزید بہتر بنانا چاہیے نہ کہ اس کو عام لوگوں کے بند کردیا جائے۔'
شرمیلا فاروقی کا مزید کہنا تھا: 'یہ ساحل ایک ایسا اثاثہ ہے جو پاکستان بھر میں کہیں نہیں ہے، لہذا اس پر ایسے منصوبے بنانے اور ایسے نظاروں کو بند کرنے کے بجائے عوام کے لیے کھلا رہنے دیں۔'
'منصوبہ ایک حماقت ہے'
آرکیٹیکٹ عارف بلگامی نے مجوزہ پارک کے منصوبے کو حماقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی پورے ڈے ایچ اے کے گٹروں کا پانی بغیر صاف کیے سی ویو ساحل پر جگہ جگہ سے سمندر میں پھینک رہی ہے، جس سے اٹھنے والے تعفن کے باعث ساحل پر کھڑا ہونا دوبھر ہے اور گندگی کے ذرات ہوا کے ذریعے ساحل کی ریت کے ساتھ وہاں آنے والے انسانوں میں سانس کے ذریعے داخل ہو رہے ہیں، ایسے میں گندگی کے ڈھیر پر کوئی ایسا منصوبہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا: 'گندگی کو صاف کیے بغیر یہ منصوبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے گندگی کے ڈھیر پر صاف چادر بچھا کر بیٹھنا۔ لوگ ساحل پر سمندر کے پانی اور ریت کے لیے آتے ہیں، وہاں پر سیمنٹ لگاکر مصنوعی گھاس لگانا ماحول کے لیے نقصان دہ ہے اور قانونی طور پر ڈی ایچ اے ساحل پر ایسے منصوبے نہیں بناسکتی۔'
عارف بلگامی کا مزید کہنا تھا کہ '6 جولائی کو کراچی میں ہونے والی بارش کے بعد سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں ڈیفنس میں گٹروں کو ابلتے ہوئے دیکھا گیا جو ڈی ایچ اے کی جانب سے انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بنیادی منصوبوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ایسے متنازع منصوبے شروع کرنا تعجب کی بات ہے۔'
ماہرِ تعمیرات اور ثقافتی ورثے کی کنسلٹنٹ ماروی مظہر نے حالیہ دنوں میں سمندر کے ساتھ کی گئی تعمیرات پر تحقیق کرکے ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے کہ نئی تعمیر کی جانے والی یہ عمارتیں کس کی ہیں؟ اور کس طرح ساحل پر خاموشی سے ماحول اور فطرت کا خیال کیے بغیر تعمیرات کرکے ساحل کو عوام کے لیے بند کیا جارہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ماروی مظہر نے کہا: 'اگر آپ ڈی ایچ اے فیز 8 ایکسٹینشن کو دیکھیں یا دیگر عمارتوں کو تو وہ صرف ان لوگوں کے لیے بنائی جارہی ہیں جو وہاں داخل ہونے کی قیمت ادا کرسکتے ہیں۔ وہاں سبزے کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں موحولیات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ سمندر کے پانی تک میں تعمیرات کی جارہی ہیں۔'
'آپ مسلسل ماحول کو تباہ کرکے عمارتیں بناکر صرف اور صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں، یہ سارا پیسے کا کھیل ہے۔ یہ وہی دبئی والا مائنڈ سیٹ ہے کہ صحرا کو بڑے شہروں میں تبدیل کردیں۔ ڈی ایچ اے اور سی بی سی جیسے ادارے عوام الناس کو نظرانداز کرکے صرف اوپر سے نیچے دیکھتے ہیں اور اس شہر سے سب کچھ لے کر کچھ بھی واپس دینے کو تیار نہیں۔'
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن انتظامیہ کا بیان دینے میں پس و پیش
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی انتظامیہ سے اس معاملے پر ردعمل لینے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے بیان دینے میں پس و پیش کا اظہار کیا گیا۔
مختلف سوالات جیسے کہ 'جس زمین پر یہ نیا منصوبہ بنایا جارہا ہے، حکومت سندھ کی ملکیت ہے مگر اس کے باجود اس پر کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کیوں ایسے منصوبے تشکیل دے رہی ہے؟ کیا یہ منصوبہ ماحول دشمن نہیں؟ ایسے منصوبوں سے عوام الناس کے لیے سی ویو ساحل مکمل طور پر بند کرنے کے کوشش کی جارہی ہے؟' کے جوابات کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد مرتبہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے وائس چیئرمین عزیز سہروردی سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہر بار یہی کہا کہ 'میں بہت جلد آپ کو ان سوالات کے جوابات دوں گا' مگر سات روز تک انتظار کرنے کے باجود عزیز سہروردی کی جانب سے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔