یہ نہ پہلی بار ہوا ہے اور بدقسمتی سے نہ آخری بار۔ لیکن جس دیدہ دلیری کے ساتھ دن دھاڑے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو پچھلے منگل کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قلب سے اغوا کیا گیا اس نے کئی بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ان سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہو گیا ہے۔
اغوا کے بعد جلد ہی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر اس اغوا کی مذمت کی۔ مذمت کرنے والوں میں حکومت کے وزرا بھی شامل تھے۔ اسلام آباد پولیس اور سول ایجنسیوں نے جن میں ایف آئی اے بھی شامل تھی، اس بات کی وضاحت کی کہ مطیع اللہ جان نہ ان کو مطلوب تھے اور نہ انہوں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے۔
اغوا کے چند گھنٹوں بعد مطیع اللہ کی خوش قسمتی سے سکول کی کلوز سرکٹ ٹی وی سے وڈیو مل گئی جس میں تفصیل سے اس کارروائی کو دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح آدھے درجن گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے جن میں اکثر نے انسداد دہشت گردی پولیس کی وردیاں پہن رکھی ہیں، نہتے مطیع اللہ جان پر دھاوا بولا اور ان پر تشدد کرتے ہوئے اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئے۔
12 گھنٹے کی اذیت رسانی کے بعد مطیع اللہ جان جب واپس آئے تو انہوں نے اپنے اغوا کی کہانی ایک ویڈیو کے ذریعے بیان کی۔ مطیع اللہ نے رہائی کے بعد جاری کردہ ویڈیو میں اغواکاروں سے کی گئی گفتگو میں انکشاف کیا کہ اغواکار بار بار ان سےان کے پیشہ ورانہ کام سے متعلق اپنی برہمی کا اظہار کرتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب کسی کو بھی اس پر شک نہیں ہے کہ ان کے اغوا کا تعلق ان کے کام سے ہے جو کچھ طاقتور حلقوں کو برا لگا۔ ویسے تو مطیع اللہ جان اپنے خیالات اور کام کی وجہ سے مشہور ہیں کہ وہ ملک میں آئین کی پامالی اور جمہوری اداروں کی بے توقیری پر لکھتے اور بولتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں ان کی رپورٹنگ قاضی فائز عیسیٰ کیس سے متعلق رہی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ پہلے ہی فیض آباد دھرنا کیس اور اس سے پہلے کوئٹہ کمیشن رپورٹ کیس میں اپنے فیصلوں کی وجہ سے طاقتور حلقوں میں خاصے غیرمقبول تھے۔
حال ہی میں قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک گم نام شخص کے نام سے ایک شکایت کو بنیاد بنا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں داخل کیا گیا تھا جس کے خلاف قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن لے کر گئے تھے۔
19 جون کو سپریم کورٹ نے قاضی عیسی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں داخل یہ ریفرنس خارج کر دیا تھا لیکن یہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کیونکہ ایف بی آر اپنی کارروائی ان کی اہلیہ کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے اور قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکیوں اور ہراسانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مطیع اللہ جان جو پچھلے انتخابات کے وقت سے ہی معتوب صحافیوں میں سرفہرست رہے ہیں، پہلے ہی ملازمت سے محروم ہیں اور کسی ادارے میں ہمت نہیں ہے کہ خوف و دہشت کے اس ماحول میں اس تجربہ کار صحافی کی خدمات حاصل کر سکے۔ اب ان کے پاس یوٹیوب کے علاوہ اور کوئی پلیٹ فارم بھی موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ان کے اغوا کی کارروائی ایک طرف اس بہادر صحافی کی تحریر اور تقریر کی طاقت اور طاقتور افراد اور حلقوں کی بڑھتی ہوئے کمزوری اور پریشانی کا برملا اعلان ہے۔
مطیع اللہ کی 12 گھنٹوں میں رہائی کی فوری وجہ ایک طرف تو اس کلوزڈ سرکٹ ٹی وی ویڈیو کا دنیا بھر میں پھیل جانا ہے۔ ویڈیو کے سامنے آنے سے اس کے بارے میں خاموشی اور تردید ناممکن ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف اس بار رد عمل کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انفرادی صحافیوں اور دانشوروں کے علاوہ ہر سیاسی جماعت کی اعلیٰ ترین قیادت نے اس واقعے پر رنج و غم کا اظہار کیا۔ تمام سیاست دانوں نے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ حکومت اور ریاست کی ایجنسیوں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 24 گھںٹوں میں مطیع اللہ کی برآمدگی کے احکامات دیے۔ دنیا بھر کی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر آواز اٹھائی۔ نتیجے کے طور پر اغواکار مطیع اللہ کی رہائی پر مجبور ہوئے۔
اس سے پہلے بھی صحافی اپنے کام کی وجہ سے عتاب کا شکار ہوئے۔ سلیم شہزاد اور حیات اللہ اپنی جان سے گئے۔ احمد نورانی اور حامد میر پر قاتلانہ حملے ہوئے اور وہ موت کے منہ سے واپس آئے۔ عمر چیمہ کو اسی طرح اغوا کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ گل بخاری ایک ٹی وی شو پر جاتے ہوئے اغوا ہوئیں اور تشدد کے بعد اسی طرح دنیا بھر میں رد عمل کے بعد وہ واپس آئیں۔
ان تمام تر کارروائیوں کے بعد آج تک ہماری کوئی سول یا غیر سول ایجنسی ان کارروائیوں میں ملوث افراد کا نہ سراغ لگا سکی ہے اور نہ ان کارروائیوں کے پیچھے افراد کو کوئی سزا ملی ہے۔ الٹا ڈیجیٹل دور میں پاکستان کا جھنڈا لگا کر، حب الوطنی کے نام نہاد علم بردار سوشل میڈیا پر ان صحافیوں کے خلاف بہتان تراشی میں مصروف رہے ہیں اور ان کارروائیوں کا دفاع کرتے نظر آئے ہیں۔ ریاست اور اس کی ایجنسیوں نے ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
ملک کا آئین اور قانون تحریر اور تقریر کی آزادی دیتا ہے۔ ملک کے آئین کے تحت انسانی جان کی حرمت موجود ہے، ایذا رسانی اور حبس بیجا کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس طرح کے متواتر واقعات اس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ اس طرح کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کرنے والوں کے خلاف آج تک نہ کوئی طریقہ کار موجود ہے اور نہ کسی کارروائی کی کوئی نظیر۔
جب تک انسانیت سوز اقدامات کے خلاف کوئی ریاستی طریقہ کار اور پکڑ نہیں ہو گی اس طرح کے اقدامات دہرائے جائیں گے۔ جب تک قومی سلامتی اور حب الوطنی کے تعین کا اختیار ملک کی منتخب مقننہ کے پاس نہیں ہو گا اور اس کی مکمل اجارہ داری نہیں ہو گی، اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
پاکستان کے اندر شہریوں، صحافیوں، دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سیاسی کارکنوں کی مزاحمت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کی رعایا نہیں بلکہ اپنے آپ کو اس ریاست کے شہری اور مالک سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ شعور ملک کا آئین اور قانون دیتا ہے۔ اس شعور کا اظہار وہ ملک کی سات دہائیوں سے زائد تاریخ میں بارہا کر چکے ہیں۔
جب حکومتی وزرا بیان دینے اور مذمت کرنے تک محدود رہیں اور ملک کے وزیراعظم تک ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کریں تو اس سے یہ حقیقت بہت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ڈی جوری (de jure) کا نہیں بلکہ ڈی فیکٹو(de facto) کا راج ہے۔
جب تک اس ملک میں لوگوں کی یہ خوش فہمی دور نہیں کی جائے گی کہ یہاں پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور شہری اس ملک میں ریاست کے مالک ہیں، تب تک مطیع اللہ جان جیسے سر پھرے اپنے حقوق بھی مانگیں گے اور سینہ چوڑا کر کے اپنی بات بھی کریں گے۔ جب تک یہ دُوئی قائم رہے گی تب تک یہ مسائل رہیں گے۔
آئین اور قانون کے تکلفات کو تہہ کر دیجیے تاکہ جو لوگ اطاعت گزاری میں سلطنتِ غائبستان میں رہنا چاہتے ہیں وہ سر جھکا کر غلامی کی زندگی بسر کریں اور جن کو پسند نہیں ہے وہ اپنا ٹھکانہ کہیں اور بنا لیں۔ اس سے نہ یہ مسائل سامنے آئیں گے اور نہ دنیا میں جگ ہنسائی ہو گی۔