امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی حریف جو بائیڈن کے ایک خطاب کو ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نشر کرنے پر وائس آف امریکہ (ای او اے) اردو سروس کے ذمہ دار افراد کو منطقی انجام تک پہنچانے کا معاملہ تاحال زیر تفتیش ہے۔
امریکی نشریاتی ادارہ برائے عالمی میڈیا(یو ایس اے جی ایم)، جو کہ وائس آف امریکہ کا نگران ادارہ ہے، اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا وی او اے اردو کے ذریعے شائع کردہ ویڈیو سے کہیں امریکی نشریاتی ادارے کے ادارتی معیار اور سرکاری ملازمین کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے قانون ’ہیچ ایکٹ‘ کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے 20 جولائی کو ’ملین مسلم ووٹس سمٹ‘ کے دوران امریکی مسلمانوں سے آن لائن خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے مسلمانوں کے مسائل اور ان کی جدوجہد پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبیا اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر وہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوئے تو وہ نہ صرف مسلمانوں کے خیالات اور تجزیات کو سنیں گے بلکہ ان کو اپنے انتظامیہ کا حصہ بننے کا موقع بھی فراہم کریں گے۔
اس خطاب کا اختتام انہوں نے اس حدیث سے کیا: ’اگر تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی زبان سے روکے۔ اور جو یہ بھی نہ کر سکتا ہو وہ (برائی کو) دل میں برا کہے۔‘
نیوز آؤٹ لیٹ پولیٹیکو کےمطابق وائس آف امریکہ اردو سروس نے 22 جون کو اس خطاب کے کچھ حصے کو ویب سائٹ اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر چلایا۔ جس پر بعد کئی حلقوں میں ادارے پر تنقید سامنے آئی اور اس کو جانبدار اقدام قرار دیا گیا۔
وی او اے کے چیف ایگزیکٹیو مائیکل پیک نے فوراً معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار افراد کو معطل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ وائس آف امریکہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور قانون کے مطابق تمام قسم کے ملازمین اس بات کے پابند ہیں کہ وہ قطعئی طور پر غیر جانبدار رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ادارے کے ذریعے الیکشن کو ڈیموکریٹک رہنما کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وائس آف امریکہ اردو سروس کے ایک صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سروس میں کام کرنے والے چار صحافیوں کو ذمہ دار ٹھرایا جارہا ہے تاہم ان کے نام فی الحال افشا نہیں کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی تک کسی کو نوکری سے نہیں نکالا گیا ہے۔
’نئے چیف ایگزیکٹیو کے آنے کے بعد حالات بہت بدل گئے ہیں۔‘
اس ادارے کے بعض صحافیوں نے یہ بھی بتایا کہ وی او اے کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کی جانے والی کارروائی ڈسپلن سے زیادہ سیاسی خوشنودی لگ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو سروس نے قانون کی خلاف ورزی ضرور کی ہے تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں، ادارے کے نئے چیف ایگزیکٹیو ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے زیادہ سختی سے پیش آ رہے ہیں۔
ہر بار حکومت بدلنے کے ساتھ وائس آف امریکہ کا چیف ایگزیکٹیو بھی بدلتا رہتا ہے لہذا ہر سی ای او دراصل حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اور اسی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے جس طرح امریکی صدر کی پالیسی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ اپنے صحافیوں سے کیا توقع رکھتا ہے؟
وی او اے چارٹر کی شک نمبر دو کے مطابق ادارے کے لیے کام کرنے والے صحافی سے کسی ایک خاص طبقے کی نہیں بلکہ پورے امریکہ کی نمائندگی کی توقع کی جاتی ہے۔ لہذا وہ ان تمام سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں گے جس سے ادارے پر جانبداری کا الزام لگ سکتا ہو۔
بلکہ اس کے برعکس وہ ایک متوازن اور جامع انداز دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔
ادارے پر ’ہیچ ایکٹ‘ لاگو ہوتی ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس رو سے قوانین سے خلاف ورزی کرنے والوں کو یا تو ملازمت سے ہٹایا جا سکتا ہے یا ان کی تنخواہ سے ایک ہزار امریکی ڈالرز کی کٹوتی کی جاسکتی ہے۔