امریکہ اور آسٹریلیا کی جانب سے فوجی تعاون میں اضافے کا بیان سامنے آیا ہے۔
دونوں ممالک کا یہ اقدام چین کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اتحادی ملکوں کا مشترکہ محاذ ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باوجود واشنگٹن میں سالانہ مذاکرات کے دوران آسٹریلیا کی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے محتاط لیکن واضح طور پرامریکی انتظامیہ کی چین سے متعلق پالیسی میں جارحانہ تبدیلی کی حمایت کی ہے۔
گذشتہ روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مشترکہ پریس کانفرنس میں آسٹریلوی وزرا کو بتایا ہے کہ آپ کو اور باقی دنیا کو جس خطرے کا سامنے ہے امریکہ اس سے آگاہ ہے اور ایک ایسے اتحاد میں آپ کے ساتھ کھڑا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا۔
اس موقعے پر امریکی وزیر دفاع وزیر دفاع مارک ایسپر نے گذشتہ ہفتے فلپائن کے سمندر میں امریکی سٹرائیک گروپ اور جاپانی ڈسٹرائیر کی مشقوں میں آسٹریلیا کے پانچ جنگی بحری جہازوں کی شرکت کو سراہا۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان مشقوں سے نہ صرف آپریشنز کی باہمی صلاحیت میں اضافہ ہوگا بلکہ بیجنگ کے لیے بھی واضح اشارہ ہو گا کہ جہاں بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے ہم سمندر کے راستے وہاں پہنچیں گے اور کارروائی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں اورشراکت داروں کی جانب سے بھی ایسی کارروائی کے حق کا دفاع کریں گے۔
آسٹریلوی وزیر دفاع لنڈا رینالڈز نے اس موقعے پر کہا کہ امریکہ اور آسٹریلیا دفاع کے شعبوں جن میں آواز سے زیادہ تیز رفتاری، الیکٹرانک اور خلا میں جنگ شامل ہیں، میں دیرپا تعاون قائم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعلق علاقائی سلامتی کے خلاف دنوں ممالک کی مشترکہ صلاحیت کو مضبوط بنائے گا۔
دونوں ملکوں کے وزرا نے شمالی آسٹریلیا کے شہر ڈارون میں کارروائیوں میں توسیع پر تبادلہ خیال کیا جہاں سابق صدر باراک اوباما کے ایک فیصلے کے تحت امریکی میرینز 2012 سے باری باری فرائض انجام دے رہے ہیں۔
امریکہ ڈارون میں فوجی مقاصد کے لیے ایندھن کا ذخیرہ قائم کرے گا اور اتحادی ممالک وہاں ہم خیال ملکوں کے ساتھ مشقیں کرنے پر غور کریں گے۔ یہ ممکنہ طورپر جاپان اور بھارت کی طرف اشارہ ہے۔
آسٹریلیا نے گذشتہ سال کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر درمیانے فاصلے پرمار کرنے والےمیزائلوں کا امریکہ اڈہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر مارک ایسپر نے کہا کہ اتحادی ملک مکمل تزویراتی صلاحیتوں اور حکمت عملی کے مالک ہیں اور آنے والوں برسوں میں اکٹھے کھڑے دکھائی گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے چین کے حوالے سے سخت مؤقف اپنایا ہے اور چین کے معاملے میں امریکہ کی 50 برس جاری پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے بیجنگ کے مقابلے کے لیے ایک مضبوط اتحاد پر زور دیا ہے۔
تجارت میں آسٹریلیا کے چین پر انحصارکے باوجود وزیراعظم سکاٹ موریسن کی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت نے امریکہ کی کھل کر حمائت کی ہے۔
آسٹریلیا نے طویل عرصے سے چلے آنے والے اتحادی امریکہ کی جانب سے کرونا کے ماخذ کی عالمی سطحی تحقیقات کے مطالبے اور جنوبی چین کے سمندر پر چینی دعوے مسترد کرنے میں مائیک پومپیو کی حمایت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پومپیو نے موریسن کی جانب سے چینی خواہشات کے سامنے نہ جھکنے کے عمل کو سراہا ہے۔ اس سے پہلے جوابی اقدام کے طور پر چین نے آسٹریلیا کے ساتھ سفر اور تجارتی معاملات کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ چین پر آسٹریلیا کی حکومتی ویب سائیٹس پر سائبر حملوں کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تاہم آسٹریلوی وزیر خارج میریزپین نے تسلیم کیا ہے کہ دونوں ملک ہر بات پر متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کے بعد کثیرالمقاصد طبی صلاحیتوں کے حصول کی اہمیت پر زور دیا۔
امریکی اور آسٹریلوی وزرا کی ملاقات کے موقعے پر چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے ایک اور امریکی اتحادی فرانس کے ہم منصب کو ٹیلی فون کیا اور الزام لگایا کہ واشنگٹن نتائج سے بے پروا ہو کر محاذ آرائی کے لیے اشتعال انگیزی کر رہا ہے۔
امریکہ کے قریبی اتحادی اور چین سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے ملک سنگاپور کے وزیراعظم نے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کو بتایا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات تاریخی طورپر ہمیشہ الجھ جاتے ہیں لیکن اس کے بعد مستحکم ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا کیونکہ اب وہ صورت حال کو خاصا مختلف محسوس کر رہے ہیں۔