حکومت خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سابق قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں ہے اور سکیورٹی فورسز تمام صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور پاک فوج کے جوان موجود ہیں، جو کسی بھی صورت میں امن کو خراب کرنے نہیں دیں گے۔ تاہم انہوں نے علاقے میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ’اس طرح کے عناصر پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی کڑی نظر ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق عید سے پہلے ٹی ٹی پی کے 18 جنگجو کمانڈر رسول محمد محسود کی سربراہی میں وانا کے علاقے اعظم ورسک آئے اور وہاں ’گڈ طالبان‘ سے ملے تھے۔ وہ کچھ ضروری خریداری کے بعد واپس جنوبی وزیرستان کے علاقہ محسود لوٹ گئے۔ مقامی لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ غیررجسٹرڈ تین ڈبل کیبن گاڑیوں میں سوار اور مسلح تھے۔
کامران بنگش نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے نئے ضم شدہ اضلاع میں امن قائم کرنے کے لیے خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کردیا ہے اور وہ ہر قسم کے حالات سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے تحریک طالبان کے ساتھ خفیہ رابطوں کو محض افواہ قرار دیا۔
اعظم ورسک کے ایک عینی شاہد کا البتہ کہنا تھا کہ جب محسود طالبان اعظم ورسک میں داخل ہوئے تو بازار میں موجود اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ شاید یہ گڈ طالبان ہیں ورنہ ٹی ٹی پی کے جنگجو کیسے آسکتے ہیں۔ ’جن گاڑیوں میں طالبان جنگجو سوار تھے وہ علاقے میں پہلی بار دیکھی گئی تھیں اور اس میں سوار لوگ بھی جانے پہچانے نہیں تھے۔‘
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی آمد پر ایک سرکاری افسر نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو ہزار جنگجو جنوبی وزیرستان میں واپس آئے ہوں گے، جن پر حکومت کی پوری نظر ہے لیکن انہیں کسی خفیہ معاہدے کا علم نہیں۔ سرکاری افسر کے مطابق وہ اس مرتبہ وزیرستان میں عام شہریوں کی طرح پرامن رہیں گے۔
گڈ طالبان کے ایک کمانڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کمانڈر حکیم اللہ کے بھائی کمانڈر اعجاز خان محسود خود بھی وزیرستان پہنچ گئے ہیں اور علاقہ محسود میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز محسود کی سربراہی میں علاقہ محسود میں امن وامان قائم ہوگا اور کوئی بھی کسی کے حق کو نہیں چھین سکتا اور نہ ہی کوئی طاقت ور کسی غریب کا حق مار سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات اچھے ہیں۔
دوسری جانب مقامی لوگوں نے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے آنے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کے نقصانات، لوگوں کے مکانات اور کاروبار تباہ کر کے 16 سال طویل جنگ تو ان ہی شدت پسندوں کے خلاف لڑی گئی تھی اور اب اچانک کیسے یہ صاف اور پاکستان کے اچھے شہریوں میں شامل ہوگئے۔
ایک گڈ طالبان کمانڈر نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ حکیم اللہ کے بھائی اعجاز محسود اپنے سو محافظوں کے ساتھ علاقہ محسود میں موجود ہیں البتہ ان کی رہائش ایک جگہ نہیں بلکہ ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی 12 رکنی شوری ضرورت کے وقت اکھٹی ہوتی ہے اور وہ اپنے کمانڈروں کو ٹھکانے تبدیل کرنے اور ایک دوسرے سے رابطے کا طریقہ کار بتاتے ہیں، جس پر تمام کمانڈرز عمل کرتے ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ عید سے پہلے ٹی ٹی پی کے 18 جنگجو اعظم ورسک میں آئے تھے اور کچھ خریداری کے بعد واپس چلے گئے۔ دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر (ر) محمود شاہ نے بتایا کہ کہ چند سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں نے، جو وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث افغانستان چلے گئے تھے، سکیورٹی اداروں کو درخواست دی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے خواہش مند ہیں اور وہ اپنے علاقوں میں پرامن رہنا چاہتے ہیں۔
’اس پر فوج نے مجھے مشورے کے لیے طلب کیا تھا لیکن اس پر ان کا اتفاق نہ ہوسکا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبصرین کے خیال میں تحریک طالبان پاکستان کے خاندان والے ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ وہ گذشتہ 16 سالوں سے جنگ کی وجہ سے اپنے بال بچوں سے دور رہنے پر مجبور ہوگئے تھے اور ان کی اب مجبوری ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں تاکہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ مل سکیں۔
دوسری طرف پاکستان بھی اگر امن و امان برقرار رکھنا چاہتا ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے اور افغانستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ’اگر افغانستان میں یہ محفوظ ٹھکانے ختم نہیں ہوئے تو پاکستان کے اندر کھبی بھی امن نہیں آسکتا۔ ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان ان شدت پسندوں کو غیر مسلح کر کے ملک میں پرامن طور پر رہنے کی اجازت دے۔ طالبان کے ایک کمانڈر کے مطابق وہ کسی بھی صورت غیر مسلح ہونے کے لیے تیار نہیں، البتہ وہ پاکستان میں کسی کے خلاف کارروائی بھی نہیں کریں گے۔