سندھ کابینہ نے مکمل بحث مباحثے کے بعد ضلع غربی(District West) میں سے ضلع کیماڑی بنانے کی منظوری دے دی ہے۔
اس فیصلے کے بعد کراچی کل سات اضلاع پر مشتمل ہوگا۔ وزیر اعلی سندھ کے مطابق یہ فیصلہ عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے۔
تاہم سندھ میں مخاف جماعتوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل اس ضلعے کا قیام ایک سیاسی حربہ ہے۔
کراچی میں ساتواں ضلع کیوں اور کیسے بنایا گیا ہے؟
گزشتہ روز وزیر اعلی ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کی۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری ممتاز شاہ، تمام صوبائی وزرا، مشیران، اور متعلقہ افسران موجود تھے۔
اجلاس میں کابینہ کو بتایا گیا کہ اس وقت ضلع غربی میں سات بڑے ڈویژنز ہیں جن میں منگھو پیر، سائٹ ایریا، بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، مومن آباد، ہاربر فرنٹ اور ماڑی پور شامل ہیں۔
ضلع غربی کی موجودہ آبادی 39 لاکھ سے زائد ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ صوبہ سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے بورڈ آف ریونیو (بی او آر) کو ہدایت کی کہ سندھ کے وہ تمام اضلاع جہاں زیادہ آبادی یا علاقے ہیں وہاں مزید اضلاع کی تشکیل کے لیے تفصیلی تجاویز پیش کی جائیں۔
کابینہ نے تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد کراچی کے ضلع غربی میں سے ضلع کیماڑی بنانے کی منظوری دے دی جوکہ چار سب ڈویژن پر مشتمل ہوگا یعنی سائٹ ایریا، بلدیہ ٹاؤن، ہاربر فرنٹ اور ماڑی پور جس کی مجموعی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب ہوگی۔
اس اجلاس میں سندھ کے ضلع خیرپور کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
اس حوالے سے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'میں نے سنا ہے کہ اسے (خیرپور کو) آئینی تحفظ حاصل ہے لہذا اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ محکمہ قانون خیرپور کے حوالے سے مزید طریقے یا ذرائع تلاش کریں کہ کس طرح خیرپور سے مزید ایک نیا ضلع بنایا جاسکتا ہے۔'
تاہم سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے خیر پور ضلعے کی تقسیم کے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 'خیرپور ضلع ہماری ماں جیسا ہے، اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔'
کیا نئے ضلعے کا قیام ایک سیاسی حربہ ہے؟
سال 2018 کے انتخابات میں ضلع غربی سے منتخب کردہ ایم پی اے شاہنواز جدون (رکن پاکستان تحریک انصاف) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے لیے ایک قومی اسمبلی کی سیٹ اور دو صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں نکالنے کے لیے ضلع غربی کو تقسیم کیا ہے۔ ضلعے بنا دینے سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس پہلے انہوں نے ملیر اور کورنگی ضلعے بنائے لیکن اس اقدام سے وہاں آج تک کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نچلے طبقے میں اختیارات کی ترسیل چاہتے ہیں۔ کراچی کو 100 ٹاؤن میں تقسیم کرنا چاہیے۔ جب تک لوکل گورنمنٹ بااختیار نہیں ہوگی تب تک کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی چاہے کتنے بھی ضلعے بنادیں۔'
پاکستاں تحریک انصاف کے ایک اور رکن سمیر میر شیخ نے سندھ حکومت کے اس اقدام کو 'ڈرامے بازی' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ 'سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نے اس فیصلے سے قبل کراچی کے دونوں سٹیک ہولڈرز پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو اعتماد نہیں لیا۔ ہم جلد ہی اپنے اتحادیوں کے ساتھ عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کریں گے کیوں کہ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہے۔ '
اس فیصلے کے مقامی حکومت پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'بلدیاتی انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی نے اپنے من پسند اور کرپٹ لوگوں کو ڈی سی تعینات کرنا شروع کردیا ہے جس کی بہترین مثال ڈٰی سی سینٹرل ضیا الرحمان ہیں جن کے حوالے سے ہم نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور میڈٰیا پر یہ خبر چلی تو انہوں راتوں رات ضیا الرحمن کو عہدے سے ہٹا دیا۔
پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات کو خراب کرنے کے لیے یہ تمام اقدامات کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ وہ کراچی میں اپنا میئر تعینات کریں۔'
پاک سر زمین پارٹی کے چئیرمین مصطفیٰ کمال کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے کہ یہ ایک سیاسی حربہ ہے۔ کیا چھ اضلاع میں بڑی دودھ کی نہریں رہی تھیں کہ اب ایک اور ضلع بنا دیا گیا ہے؟ اس کے پیچھے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے سیاسی مقاصد ہیں اور یہ ان کی ملی بھگت ہے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم کراچی سے اس کے ری ایکشن میں آواذ اٹھائے اور اس اقدام کے بعد کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کرے۔ پیپلزپارٹی اس کی مخالفت کرے گی یہ کہہ کر کہ مہاجر سندھ کی تقسیم چاہتے ہیں مگر ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ یہ دونوں جماعتیں اب اگلے انتخابات تک سندھ اور کراچی کی تقسیم پر سیاست کریں گی اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔'
کیا کراچی میں ساتویں ضلعے کی ضرورت ہے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ہمیں کراچی کی مقامی حکومت اور اس کے ڈھانچے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کراچی کی مقامی حکومت پر سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 (ایس ایل اے 2013) کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کے تحت کراچی کی مقامی حکومت کا نظام کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن(کے ایم سی) پر مشتمل ہے جو کہ ضلع کیماڑی کے قیام سے پہلے چھ اور اب سات ضلعی میونسپل کارپوریشنز(ڈی ایم سی) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ڈی ایم سی میں ایک چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہوتا ہے۔
ہر ضلع کو مزید یونین کمیٹیوں(UCs) میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی سربراہی چیئرمین اور وائس چیئرمین کرتے ہیں۔ ہر یونین کمیٹی میں مزید چار وارڈ قائم کیے جاتے ہیں۔ تمام یونین کمیٹیوں کے چیئرمین سٹی کونسل تشکیل دیتے ہیں، یعنی تمام یو سی چئیرمین براہ راست کے ایم سی کے بھی ممبر ہوتے ہیں۔ یہ ممبران میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔
اس وقت کراچی کے میئر وسیم اختر اور نائب میئر ارشد حسن ہیں، جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
28 اگست کو کراچی کی موجودہ مقامی حکومت کی مدت ختم ہوری ہے جس کے بعد تمام اضلاع کی ذمہ داری ایڈمنسٹریٹرز سنبھالیں گے۔
وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کو سندھ کابینہ نے ان ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کا اختیار سونپ دیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو مزید بہتر کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آئندہ ماہ اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
کراچی کے سابقہ مئیر مصطفیٰ کمال نے شہر میں نئے ضلعے کے قیام پر اپنے رائے دیتے ہوئے کہا کہ 'اس نئے ضلعے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ یہ کراچی کے موجودہ مسائل میں مزید اضافہ کرے گا۔ کراچی کے مسائل کا حل ایک ضلع اور اس کے 18 سے 20 ٹاؤنز کا قیام ہے۔ کراچی کے تمام مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ اسے پہلے چھ اور اب سات اضلاع میں تقسیم کردیا گیا ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'حال ہی میں سپریم کورٹ کراچی میں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں سماعت کی اور کراچی کی حالت پر انتہائی افسوس کیا۔ چیف جسٹس نے سندھ حکومت سے پوچھا کہ ان کی رٹ کہاں ہے؟ انہیں کراچی کے مسائل حل کرنے تھے لیکن انہوں نے اس کے بدلے میں ایک نیا ضلع بنا دیا۔ اس سے اب نہ صرف کراچی کے اخراجات میں اضافہ ہوگا بلکہ کراچی کی مقامی حکومت جو کہ پہلے سے اختیارات نہ ہونے کا رونا روتی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس فیصلے سے صرف کراچی پر مزید بوجھ پڑے گا اور شہر کا نظام مزید خراب ہوگا۔'