کچھ عرصہ قبل کی ہی بات ہے جب حکومت نے ملک بھر سے پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کرکے ماحول دوست یعنی بائیو ڈی گریڈیبل بیگز کے استعمال کو یقینی بنانے اعلان کیا تھا، لیکن خیبرپختونخوا، خصوصاً دارالحکوومت پشاور میں دکاندار پچھلے کچھ مہینوں سے دوبارہ پولیتھین خاص طور پر کالے پلاسٹک بیگز کا دھڑا دھڑ استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں حالیہ بحث مباحثوں کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بائیو ڈی گریڈیبل تھیلے بھی ماحول دوست ثابت نہیں ہوئے ہیں، اور دیگر پلاسٹک بیگز کی طرح یہ بھی استعمال کے بعد از خود مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔
اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے معاون خصوصی کامران بنگش سے بات کی گئی تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت اب بائیوڈی گریڈیبل کے حق میں بھی نہیں رہی ہے اور بہت جلد صوبے میں ایک نئی مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے تحت کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا: ’اگرچہ بائیوڈی گریڈیبل بیگ عام پولیتھین بیگ کے مقابلے میں اچھے ہیں لیکن نئی ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ بیگز بھی مٹی میں مل کر ختم نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے وزیراعلیٰ نے پچھلے اسمبلی سیشن کے دوران کپڑے کے تھیلے متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس مہم میں ہم مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو حصہ لینے کی دعوت دیں گے۔‘
پلاسٹک بیگز کو مکمل طور پر ختم نہ کرسکنے کے سوال پر کامران بنگش نے بتایا: ’دراصل جب ہم نے پولیتھین بیگز پر خیبر پختونخوا میں پابندی لگائی تو کاروباری حضرات معاشی بحران کی شکایت کرنے لگے۔ انہیں ایک متبادل روزگار دینے کے لیے ہم نے بائیوڈی گریڈیبل بیگز بنانے کا مشورہ دیا اور ٹرانزیشن کے لیے مہلت بھی دی، لیکن اب چونکہ حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں رہا ہے لہذا پلاسٹک بیگز بنانے والی انڈسٹریز پر پابندی لگائی جائے گی۔‘
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی نے مزید بتایا کہ اسلام آباد کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی کاغذ اور کپڑے کے تھیلوں کا استعمال اپنا کر ماحولیاتی خطرات سے بچا جا سکے گا۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً پانچ کھرب اور پاکستان میں ہر سال اندازاً 55 سے 112 ارب پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاص انتظام بھی نہیں ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پلاسٹک اور کاغذی بیگز کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے باعث اس پر اعشاریہ پانچ فی صد ٹیکس بھی لگایا گیا ہے جبکہ کئی دیگر مغربی اور بعض ایشیائی ممالک اس پر مکمل پابندی لگانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
پلاسٹک بیگز کا استعمال روکنے کے لیے خیبر پختونخوا میں کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟
اس حوالے سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن ڈاکٹر آسیہ اسد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پلاسٹک بیگز کی حوصلہ شکنی اور اس کی روک تھام کی سمری خیبر پختونخوا کابینہ سے منظور ہو گئی ہے اور اب بہت جلد اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سیاست میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے ہی اپنی دیگر ڈاکٹر دوستوں کے تعاون سے یونیورسٹی ٹاؤن میں گھر گھر مہم بھی چلا چکی ہیں، تاکہ خواتین کو کپڑے کے تھیلوں کے استعمال پر آمادہ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر آسیہ اسد کے مطابق: ’ہم نے نہ صرف اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھایا بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گرلز گائیڈ، خواتین کی جیلوں اور دیگر تنظیموں سے تھیلے بنانے میں مدد حاصل کی۔ اب چونکہ بائیوڈی گریڈیبل بھی پوری طرح ڈی کمپوز نہیں ہوتے لہذا خیبر پختونخوا حکومت کاغذ اور کپڑے کے تھیلے متعارف کروانے کے لیے ایک نئی مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے دوران ہم سکولوں میں طالبات سے بڑے پیمانے پر کپڑے کے بیگز تیار کروائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے پشاور میں گرلز گائیڈ کی سربراہ فائزہ عادل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا سے کچھ قبل اپنی تنظیم کے سلائی کڑھائی سینٹر سے تقریباً 300 کپڑے کے تھیلے بنوائے جو انہوں نے شعور بیدار کرنے کی غرض سے لوگوں میں مفت تقسیم کیے۔
فائزہ عادل نے بتایا کہ انہوں نے ملتان سے خالص کینوس کپڑے کا تھان منگوایا تاکہ اس کے ماحول دوست ہونے میں کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور یہ باآسانی گل (ڈی کمپوز) ہوسکیں۔
انہوں نے حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’ پلاسٹک کے تھیلوں کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو بھاری ٹیکس لگانے کے ساتھ یہ تھیلے مفت دینے پر پابندی لگانی چاہیے جبکہ ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر ہم ماحول کو بچانا چاہتے ہیں تو کاغذ کے بیگز متعارف کروانا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ کاغذ کی تیاری کے لیے جب درخت کٹیں گے تو تب بھی ماحول کو نقصان پہنچے گا۔‘
پلاسٹک کے تھیلے اکثر اوقات نالوں اور سیوریج سسٹم میں رکاوٹ بننے کے علاوی سمندر اور دریاؤں میں جاکر آبی حیات کی موت کا باعث بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹر ایکم سٹائنر نے رواں سال جون کے مہینے میں پلاسٹک بیگز کے ماحول اور جانداروں پر خطرناک اثرات کے پیش نظر اس کے استعمال پر عالمی سطح پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ’سنگل یوز‘ پلاسٹک کے تھیلے بنانے کا کوئی جواز نہیں رہا ہے، لہذا اس پر پوری دنیا میں پابندی عائد کی جائے۔