ایران کی سابق ملکہ فرح پہلوی کی ایک خوبصورت قمیص کی جرمنی کے ہرمن ہسٹوریکہ انسٹی ٹیوٹ میں بولی لگانے کی آخری تاریخ جمعے (25 ستمبر) کو ختم ہو رہی ہے۔
تقریباً ایک ماہ قبل ہرمن ہسٹوریکہ نے فیروزی بلوچ کڑھائی والی لمبی سفید ریشمی قمیص کو نیلامی کے لیے پیش کیا ہے جس کی ابتدائی قیمت 7،500 یورو رکھی گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فرح پہلوی نے ایرانی روایتی فن کو دنیا کے سامنے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ترک کر دیے گئے روایتی فنون کے استعمال پر فرح کے زور کی وجہ سے بہت ساری عالمی شخصیات نے جدید آرائش کے ڈیزائن کے لیے مقامی فن کو استعمال کرنے پر توجہ دی۔
فرح پہلوی نے دی انڈپینڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’مجھے دیہات کی ترقی اور دست کاری کی ترقی میں بہت دلچسپی تھی اور میں، قلم، بوتیک، سونے اور کپڑے کے ساتھ ایرانی لباس رکھنا چاہتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا: ’غزالہ صبا نے مقامی کپڑے سے میرے لیے کچھ لباس تیار کیے۔ کیون خسروانی، جو ایک آرکیٹیکٹ تھیں اور وہ میرے ایرانی لباس کی ڈیزائنر بھی تھیں۔ انہوں نے مجھے ہاتھ کی کڑھائی والے بہت سے کپڑے مہیا کیے۔ پری زلفاگاری ان کپڑوں کی سلائی کی انچارج تھیں۔‘
بلوچی سوئی کا کام ملکہ ایران کے لباس میں کیسے آیا؟
انہوں نے بتایا: ’بلوچستان میں مہ منیر جہاں بانی، ایک ورکشاپ میں بلوچی کڑھائی کرتی تھیں۔ بلوچ کڑھائی کے روایتی رنگ زیادہ تر سیاہ، سرخ اور سفید تھے، لیکن جہاں بانی نے مختلف رنگوں کے دھاگے مہیا کیے تھے اور میرے بہت سے کپڑے مختلف رنگوں سے بلوچ بن گئے تھے۔‘
دنیا پر اس ایرانی فن کو استعمال کرنے کے اثرات کے بارے میں ایران کی سابق ملکہ نے کہا: ’وزارت ثقافت اور آرٹس کی ورکشاپس میں سنہری لباس تیار کیے گئے تھے۔ میرے ان کپڑوں کے استعمال سے ایرانی ڈیزائنرز اور درزی دنیا کے سامنے آگئے۔ میں نے الزبتھ ٹیلر کی ایک تصویر دیکھی جس میں وہ خوبصورت بلوچ لباس پہنے ہوئے تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہاں اور بھی لوگ موجود تھے۔‘
لیکن ملکہ ایران کی لمبی اور خوبصورت قمیص جرمن نیلامی میں کیسے آئی؟ نیلامی کے اعلان کے وقت یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ آیا یہ قمیص وہی تھی جو ملکہ نے جون 1351 میں رچرڈ نکسن اور ان کی اہلیہ کے سرکاری دورہ ایران کے دوران پہنی تھی۔
برسوں پہلے 1970 کی دہائی کے اوائل میں یہ قمیص پہنے ملکہ ایران کی تصویر دنیا بھر کے خبر رساں اداروں کے ذریعے شائع ہوئی، جس کے بعد مغربی جرمنی کی ایک لڑکی نے ملکہ سے اپنی شادی کی تقریب کے لیے ایسی ہی قمیص کی فرمائش کی اور ملکہ ایران کی درخواست پر، کیون خسروانی کی تیار کردہ قمیص کی ایک بار پھر سلائی ہوئی اور اسے مغربی جرمنی کے دارالحکومت بون میں واقع شاہی ایرانی سفارت خانہ بھیجا گیا، جہاں یہ نو عمر دلہن رہ رہی تھیں۔
انڈپینڈنٹ فارسی نے ہرمن ہسٹوریکہ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہرمن پوچر سے رابطے میں یہی سوال کیا۔ پچیر نے جواب دیا کہ یہ لباس 1975 میں مغربی جرمنی میں رائل ایرانی سفارت خانے نے ملکہ ایران کی جانب سے ایک لڑکی کو عطیہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پوچر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ قمیص کی موجودہ مالک اس شخص کی بیوی ہے جس کو لباس دیا گیا تھا۔ وہ لڑکی فوت ہوگئی تھی۔ نیلامی کے دوران اس لباس کے مالک اور فاتح کے اصل نام کا اعلان قواعد کے سبب نہیں کیا جائے گا۔
فرح پہلوی کے خصوصی دفتر کے سربراہ کامبیز عطابے نے انڈپینڈنٹ فارسی کو انٹرویو میں اس کہانی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ قمیص ’غالبا‘ جرمنی کی ایک لڑکی کو ملنے والا ایک تحفہ ہے۔
مہارانی فرح پہلوی کے دفتر کی سربراہ نے بھی انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا: ’یہ کاپی مشہور لباس کے برابر ہے جو ملکہ نے کئی سرکاری تقریبات میں پہنا تھا۔‘
فرح پہلوی جب 1978 میں ایران سے چلی گئیں تو اپنا کوئی پرآسائش لباس نہیں لائی تھیں۔ بلوچی کڑھائی والی لمبی سفید قمیص اب اپنے دیگر رسمی کپڑوں کے ساتھ سعد آباد کمپلیکس میں رکھی ہوئی ہے۔
منیر جہاں بانی نے ملکہ کو بلوچ کڑھائی استعمال کرنے کا آئیڈیا دیا تھا۔ کیون خسروانی نے ان کا ڈیزائن تیار کیا اور محترمہ پری زلفاگاری نے ملکہ ایران کے کپڑے سلائی کیے۔
لیکن اس لباس کی ایک تیسری کاپی بھی ہے، جسے ایمپریس کے دفتر کے مطابق 2000 میں ڈریس میکر پیری زلفاگاری نے پیرس منتقل کر دیا تھا اور اب یہ پیلیس گیلئرا میوزیم کے قبضے میں ہے۔
ملکہ کے دفتر نے ہمیں بتایا کہ اس لباس کی تیسری سلائی ابھی بھی پیلیس گیلئرا میوزیم میں ہے اور شائقین ایرانی خواتین کے اس خوبصورت فن کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔