فکرمند لوگوں کی طرف سے نسل پرستی کے خاتمے کے لیے ایک ویڈیو نشر کی گئی ہے۔ وہی ویڈیو پچھلے دو دنوں سے سوشل میڈیا کے جنگل میں نسل پرستی کی آگ میں اضافہ کرتی ہوئی آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایک لڑکا ہے، جس سے لڑکی اس لیے شادی نہیں کرنا چاہتی کہ وہ پٹھان ہے۔ وجہ یہ بتاتی ہے کہ پٹھان اجڈ، گنوار اور غصیلے ہوتے ہیں۔ پھر لڑکا اس لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کچھ برے لوگوں کی وجہ سے پوری قوم کو برا کہنا اچھا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ کراچی میں رہنے والے ان اردو سپیکنگ شہریوں کی مثال دیتا ہے جو پان گٹکا کھاتے ہیں۔ سوال اٹھاتا ہے، اگر چند پان گٹکا کھانے والوں کی وجہ سے سارے اردو بولنے والوں کو غلط کہا جائے تو کیسا لگے گا؟ پھر بات سمجھاتے ہوئے کہتا ہے، جس طرح ہر اردو بولنے والا پان گٹکا نہیں کھاتا، اسی طرح ہر پختون پشتین نہیں ہوتا۔ یہ سن کر لڑکی کی آنکھوں میں پیار اتر آتا ہے، کھڑی ہو جاتی ہے اور لڑکے پہ جان و تن سے فدا جاتی ہے۔
تبصرے کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی اگر سوشل میڈیا کی ریڑھی پر پڑی ناشپاتی کا بیج اینٹی سیاست کیاریوں سے نہ اٹھا ہوتا۔ بات یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست کو برسوں کی محنت سے گالی بنایا گیا ہے، پھر اسی گالی کو تفریح کا ایک بڑا ذریعہ بھی بنایا گیا ہے۔ ٹی وی ٹاک شو دیکھیں تو سمجھ نہیں آتا کہ یہ عدالت ہے، منبر ہے، بازار ہے، خانقاہ ہے، ملٹری کیمپ ہے یا پھر لاہور کا تھیئٹر ہے۔ تھیئٹر کے سارے چھوٹے بڑے باری باری اپنے بھونپو اٹھا کر نیوز چینلوں پر ہونے والے سیاسی اکھاڑوں میں آ گئے ہیں۔
کبھی جائزہ لے کر دیکھیے گا کہ ہماری فلموں نے گذشتہ دس برسوں میں اینٹی سیاست سکرپٹ کے علاوہ کیا دیا ہے؟ ڈرامے کی سکرین کو ساس بہو سے فرصت ملے تو پیچھے ایک سیاسی نقطۂ نظر کے سوا اس کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ اب سماجی ذرائع ابلاغ کے مورچے ہیں۔ یہاں بھی جس کے فقرے میں جان ہے اور خیال میں دم ہے اسے خوابوں میں کوہ قاف کی چڑیلیں ستاتی ہیں۔ جن کے پاس جملہ ہے اور نہ خیال ہے، مصر کا بازار ان کے خریداروں سے بھرا پڑا ہے۔
یہ ساری مارا ماری اگر اس لیے ہوتی کہ ڈھونڈنے والے سیاست میں کسی بہتری کا امکان ڈھونڈ رہے ہیں، تو کیا برا تھا۔ منصوبہ مگر یہ ہے کہ نوجوانوں کو کسی بھی قیمت پر غیر سیاسی بنا کر اپنے شہری حقوق سے لاتعلق کر دیا جائے۔ مزاج میں بے آئینی پیدا کرکے انہیں جغرافیے اور جھنڈے کی مجہول سی محبت میں الجھا دیا جائے۔ پیٹ میں روٹی ہو نہ ہو، بندوق کے میگزین میں گولی ہونی چاہیے۔ تعلیم ملے نہ ملے، جھنڈوں میں میرا جھنڈا اونچا رہنا چاہیے۔ شہری کو یہ شعور سیاست ہی دیتی ہے کہ بندوق اٹھانا محض جذبے کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے پیٹ کا مطمئن ہونا اور صحت کا اچھا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اقوامِ عالم میں جھنڈے فقط ڈنڈے سے بلند نہیں ہوتے۔ یہ ہنر کا زور اور فن کی طاقت ہوتی ہے جو پھریرے کو بلندیاں ملتی ہیں۔ آرزو بھی کرتے رہنا چاہیے، مگر وصالِ یار فقط آرزو کی بات تو نہیں ہے نا صاحب!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویڈیو کے حوالے سے خود پشتونوں کے ہاں بھی جو چیز سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ لفظ پشتین کی تحقیر ہے۔ یہ لفظ پشتین کی تحقیر کم اور سکرپٹ کے خریداروں کے ذوق اور انتخاب کا ماتم زیادہ ہے۔ آخر اس بات کے لیے کتنی ذہانت درکار ہوتی ہوگی کہ لفظ پشتین سن کر آپ کا دھیان لفظ پشتون کی طرف چلا جائے۔ پھر اس سوال کی طرف خیال جانے کے لیے کتنا علم درکار ہوتا ہوگا کہ یہ پشتین در اصل وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کسی ایکٹوسٹ کا نام ہے یا پھر ادائیگی کے فرق کے ساتھ یہ پشتونوں کو ہی کہا جاتا ہے۔
لکھنے والوں کی سی وی میں ہم فقط یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے پہلے اُس نے لکھا کتنا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم یہ سن گن بھی لیتے کہ اس نے پڑھا کتنا ہے۔ ضروری نہیں کہ لکھاری نے یونان کے کتب خانے دیمک کی طرح چاٹے ہوئے ہوں۔ اس بات کا اندازہ ہو لینا بھی کافی ہوتا ہے کہ فتح جنگ اِس طرف ہے تو پھر تلہ گنگ کس طرف ہو گا۔ لکھنے والا اگر پختون، پشتون اور پشتین کا مطلب ہی نہیں جانتا تو پھر یہ کیسے جانتا ہو گا کہ پشتون خود کو پٹھان کہلوانا پسند نہیں کرتے۔
اس پوری کہانی میں لفظ پشتین کو اگرچہ دل پر زیادہ لیا گیا ہے مگر یہ والا معاملہ مرکزی نہیں ہے۔ اس جملے میں لفظ پشتین پشتونوں کے لیے نہیں کہا گیا، منظور پشتین کے لیے کہا گیا ہے۔ اس معاملے میں زیادہ اہمیت غیر سیاسی بنانے والے حربے کی ہے جو تقابل کی صورت میں آزمایا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں پختونخوا سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشبیہ دی گئی ہے کراچی کے ان شہریوں سے جو پان گٹکا کھاتے ہیں۔ یعنی، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا؟
حد تو یہ ہے کہ یہاں وہاں کی اینٹوں سے کنبہ جوڑنے والے یہ کمبخت تو کراچی سے بھی ناواقف نکلے۔ اگر کوئی شخص پان کے تہذیبی پس منظر اور اس کے اجزا کو جانتا ہو تو وہ پان کا تقابل کبھی گٹکے سے نہیں کرے گا۔ ناشپاتی کے جوس کا موازنہ بیٹری کے پانی سے کون کرتا ہے؟ جو شخص پان کو گٹکا کہہ سکتا ہے اس سے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا تقابل گٹکا کھانے والوں سے بھی کر سکتا ہے۔ یہ قوم پرستی اور نسل پرستی کو بہت سہولت کے ساتھ ایک ہی سانس میں ادا بھی کر سکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ زمانے میں موازنے کے لیے مثالوں کی کوئی کمی پڑ گئی تھی۔ ایسا ہے کہ بچوں کو یہ پڑھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سیاست کے طالب علموں کی اوقات گلی کے کسی اوباش لونڈے جتنی ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے بیانیے میں کسی نئے صفحے کا اضافہ نہیں ہے۔ یہ بہت پرانا سبق ہے جس میں ’سب ایک جیسے نہیں ہوتے‘ کہہ کر ہمیشہ اچھوں کو بدی کا تخم اور بروں کو زمین کا نمک بتایا جاتا ہے۔
اسی سبق کا ہی تو نتیجہ ہے کہ ہم انہی کو اقلیت پکارتے ہیں جو دراصل اس ملک کی اکثریت ہوتی ہے۔ یہ سب کر کے ہم روشن مستقبل کا امکان بھی باندھتے ہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں، ہم بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی پوچھ لے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے، تو ایک لمحہ خطا کیے بغیر ہم سیاسی کارکنوں پر گٹکے کی پچکاری مار دیتے ہیں۔