تخزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاشی بدحالی اور کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے اثرات کا سامنا کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں ایران کی جانب سے حکومت مخالف کارکنوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا مقصد مستقبل میں مظاہروں کو روکنا ہے۔ تاہم ان کی نظر میں ایرانی حکومت کا انسانی حقوق کو نظر انداز کرنا اس کی طاقت کے بجائے اس کی کمزوری کی علامت ہو سکتا ہے۔
ستمبر میں دنیا نے حیرت سے دیکھا جب ایرانی ریسلنگ چیمپیئن نوید افکاری کو پھانسی دی گئی۔ وہ آخری دم تک شفاف ٹرائل کے لیے کوشش کرتے رہے، تاہم ان کو اور ان کے دو بھائیوں کو بغیر وکلا کے حراست میں رکھا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایران پر تحقیق کرنے والے منصورے ملز کا کہنا ہے کہ افکاری کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی اچانک پھانسی کا مقصد عام ایرانیوں کو ایک صاف پیغام دینا تھا۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایرانی حکام اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، یہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ایرانی سزائے موت کے خلاف سوچ رہے ہیں اور دنیا حیرت سے ایران کو مظاہرین، اقلیتوں اور حکومت مخالف افراد کے خلاف طاقت استعمال کرتے دیکھ رہی ہے اور نوید افکاری کی سزائے موت کو سیاسی کنٹرول اور عوام میں خوف پیدا کرنے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
امریکی نیوز ویب سائٹ 'دا ہل' پر چپھنے والے ایک حالیہ کالم میں ایرانی جمہوریت پسند کارکن شیرین ایبادی، عباس ملانی اور حامد مغادم نے لکھا کہ 2019 کے مظاہروں میں سات ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے جبکہ 30 مزید کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔
ستمبر میں ایمنسٹی انٹرنشنل کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں حراست میں رکھے گئے مظاہرین کو ایرانی جیلوں میں کیا کیا سہنا پڑتا ہے کے بارے میں مثالیں دی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق جو قیدی سزائے موت سے بچ گئے ان کو متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں 'مار پیٹ، کوڑوں سے مارنا، بجلی کے جھٹکے دینا، دباؤ ڈالنا اور جنسی تشدد' شامل ہے۔
تحران کا خواتین کارکنوں کے ساتھ سلوک خاص طور پر سخت رہا ہے۔ جسیے کہ معروف انسانی حقوق کی وکیل 57 سالہ نسرین سوتودے جنہیں خواتین کے حقوق پر کام کرنے پر 'سسٹم کے خلاف منصوبہ بندی میں ساتھ دینے اور امن میں خلل ڈالنے' کے الزام میں 38 سال قید اور 148 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ ایمنسٹی نے اس سزا کو 'شدید نہ انصافی' قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2009 سے ایرانی حکام نے 60 وکلا کو سیاسی قیدیوں کا دفاع کرنے پر قید میں ڈالا ہے یا پھر ان پر مقدمے کیے ہیں۔ ایران پر غیرملکیوں پر جاسوسی کے الزامات لگا کر انہیں قید میں رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ان میں 2016 سے قید برطانوی ایرانی نازنین زاغرے ریٹکلف اور 2018 سے قید برطانوی آسٹریلوی سکولر کائلی مور گلبرٹ شامل ہیں۔
ریٹکلیف کو اس سال عارضی طور پر بدنام ایون جیل سے رہا کیا گیا تھا جب کرونا کی وبا ایرانی جیلوں میں پھیلی اور انہیں تہران میں ان کے والدین کے گھر میں نطر بند رکھا گیا ہے۔ گلبرٹ کو حال ہی میں ایون سے قارچک جیل بھیجا گیا جو ایران میں خواتین کے لیے بدترین جیل مانی جاتی ہے۔
حتیٰ کہ حکومت مخالفین کے ایران سے باہر خاندان بھی محفوظ نہیں۔ امریکہ میں مقیم ایرانی حکومت کی ناقد مسیح علینجاد نے کہا ہے کہ پاساداران انقلاب اکثر ایران سے باہر ان کے خاندان کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے بھائی کو حراست میں لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو والدہ کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ 'انہوں نے گارڈز کے ساتھ ایک تنازعے میں خود پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگانے کی دھکی دی۔'
ملز نے کہا کہ مظاہرین کے ساتھ بدسلوکی کو تہران کی عوام پر کم ہوتا ہوا سیاسی کنٹرول اور بدحال ہوتی معیشت سے چوڑا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2020 کے شروع سے ہر گزرتے ماہ میں ایرانی ریال کی قیمت میں کمی آئی ہے۔ اکتوبر میں یہ اپنی کم ترین قیمت پر تھا۔ دوسری جانب امریکہ جوہری معاہدے کے بعد سے ہٹائی گئی پابندیوں کو واپس لگانے کی کوششوں میں ہے۔ جبکہ یورپی مملک پر بھی ایران پر سختی کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ملز کے مطابق: 'جب بھی ملک میں سیاسی اور معاشی صورت حال خراب ہوتی ہے، ایرانی حکام عوام پر اور دباؤ ڈالتے ہیں اور انسانی حقوق کی اور پامالی کرتی ہے۔ تہران نے دکھایا ہے کہ وہ مظاہروں اور مخالفت کو روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔'
ملز نے مزید کہا کہ ایران کے معاشی بحران ملک میں عوام کو دبانے اور تشدد کرنے میں اضافہ کرنے کی وجہ ہو سکتا ہے تاکہ وہ اندورنی غیر مستحکم صورت حال پر قابو پا سکے۔
ان کا کہنا تھا: 'نوید افکاری کی پھانسی سے ایرانی بہت غصے میں ہیں۔ ان کے موت کے بعد ایران کے سڑکوں پر سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خلاف وال چاکنک نظر آنے لگی ہیں جس میں افکاری کی موت کے انتقام کی کال دی جارہی ہے جبکہ مظاہروں کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
نیشنل کونسل آف رزسٹنس آف ایران کی فارن افئیرز کمیٹی کے رکن علی سفاوی بھی ملز سے اتفاق کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018 اور نومبر 2019 کے مظاہروں، جو معاشی مشکلات کی وجہ سے شروع ہوئے اور جلد ہی حکموت مخالف بن گئے، کی طرح اب بھی بگڑتی معاشی صورت حال ایران میں مزید مظاہروں کو جنم دے گی۔
انہوں نے کہا اس کو روکنے کے لیے حکومت 'ایک مشکل میں پھنسی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ قائم رہنے کے لیے عوام پر دباؤ ڈالنا اور سزائے موت سنانا ضروری ہے، وہیں وہ یہ بھی جانتی ہے صورت حال نازک ہے اور اسے پھانسیوں کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں کی بھی پریشانی ہے۔'
ایرانی حکومت کا مسئلہ حکومت مخالف کارکن شہلا جہان بن کے کیس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ سال کے شروع میں انہوں نے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان سے مستعفیٰ ہونے کی درخواست کی۔ اس کے جواب میں جہان بن کو چار سال کی قید سنائی گئی اور پیٹھ کی سرجری کروانے کے کچھ ماہ بعد ہی انہیں جیل واپس جانا پڑا۔
سفاوی کا کہنا ہے کہ جہان بن کے ساتھ حکومتی سلوک نے ایران میں نوجوانوں میں پائے جانے والی غم اور غصے کو ختم کرنے کا کام نہیں کیا بلکہ اسے اور بڑھا دیا ہے۔
انہوں نے کہا: 'حکومت ایک اور بغاوت کے سر اٹھانے سے خوف زدہ ہے۔'
تاہم ایران کے برے خواب اب شاید سچ ہی ہو رہے ہوں۔ 'عرب نیوز' کی حاصل کردہ ایک ویڈیو میں کچھ لوگوں کو شراز کورٹ کو آگ لگاتے دیکھا گیا ہے جہاں افکاری کو سزائے موت سنائی گئی۔ ایک اور ویڈیو میں لورستان صوبے کی مرکزی جیل کے دفاتر میں دھماکہ دیکھا گیا۔
دونوں حملے رات کو ہوئے اور اس میں صرف عمارات کو نقصان ہوا، تاہم دونوں کے نتیجے میں فوراً ہی سکیورٹی فورسز کو تعینات کردیا گیا۔ سفاوی کے مطابق اس سے حکومت میں عوام کا ڈار دکھائی دیتا ہے۔
برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بوب بلایک مین کے مطابق اس حکومتی دباؤ، عوامی ردعمل اور مزید دباؤ سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی ایران کو ایک صاف پیغام دے کہ 'اب ہم انسانی حقوق کی پامالی کو برداشت نہیں کریں گے۔'
'عرب نیوز' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک کو جوہری معاہدہ بچانے کی کوشش کرکے ایران کو خوش کرنے کی کوششوں کو ختم کرنا ہوگا اور امریکہ کی طرح مزید پابندیاں لگانی ہوں گی۔ انہوں نے کہا: 'ہمیں اس بارے میں سخت ہونا ہوگا۔'
بلیک مین نے ایران میں کرونا وبا سے ہونے والی 20 ہزار سے زائد سرکاری طور پر مصدقہ ہلاکتوں کے حوالے سے کہا کہ لوگ بیماری کے ڈر سے بھی حکومت کے خلاف باہر نہیں نکل رہے ہوں گے مگر ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔
ان کے مطابق سوال یہ ہے کہ ایرانی اپنی روزمرہ کی زندگی میں کتنی بدسلوکی برداشت کر سکتے ہیں اور وہ کیا کریں گے جب اس کی حد پار ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا: 'ہم جانتے ہیں کہ ایران کے انقلاب سے پہلے شاہ کو سول نافرمانی کی لمبی مہم کے بعد باہر نکالا گیا تھا۔ اس میں لمبا عرصہ لگا تھا۔'
'ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہرے ایرانیوں کے اصل جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ نومبر سے شروع ہوکر دسمبر تک جانے والے مظاہروں کا ہی حصہ ہیں جو مخالف کے سامنے بار بار روپ بدل کر اٹھ رہے ہیں۔'
حقوق پر کام کرنے والے اداروں، سیاست دانوں اور غیرملکی ایرانیوں میں یہ اتفاق ہے کہ تہران کی پھانسی کی سزائیں اور پرتشدد دباؤ مزید بدامنی اور حقوق کی پامالی کو جنم دے رہی ہیں۔
بیلک مین نے کہا کہ یہ سائیکل چلتی جائے گی جب تک بین الاقوامی کمیونٹی اپنی سٹریٹیجی کو نہیں بدلتی اور اس اصلیت کو تسلیم نہیں کر لیتی کہ ایران پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور وہ نہیں بدلے گا۔
ایرانی تجزیہ کاروں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، پھانسیاں اور غیر مستحکم صورت حال تب تک رہے گی جب تک خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور پاساداران انقلاب کی گرفت ختم ہو کر جمہوری حکومت اقتدار میں نہیں آتی۔