باغات کے شہر پشاور میں جنم لینے والے عمر گلُ کا کرکٹ کیریئر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کے آخری گروپ میچ کے ساتھ ہی عمر گل نے پیشہ وارانہ کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ تو وہ کافی عرصہ پہلے ترک کرچکے تھے لیکن ٹی ٹوئنٹی لیگز میں حصہ لے رہے تھے۔ گل پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا شروع سے حصہ تھے۔
بہت سے پاکستانی بولرز کی طرح عمر کی کرکٹ بھی ٹیپ بال سے شروع ہوئی۔ ایک متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باعث ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہ تھا کہ وہ کسی مہنگے کلب کے رکن بن سکیں۔ اس لیے نو عمری سے ہی وہ محلہ کرکٹ کا حصہ تھے، جہاں تیز سوئنگ بولنگ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے۔
روایتی فاسٹ بولرز کے برعکس چہرے پر مسکراہٹ سجائے جب وہ اپنے بولنگ کے نشان سے بلے باز کی طرف بھاگنا شروع کرتے تو گیند ان کے دونوں ہاتھوں میں چھپی ہوتی اور آنکھیں بلے باز کے قدموں کو دیکھ رہی ہوتیں۔
ایک نرم مزاج بولر کے روپ میں جب ان کی گیند بلے باز تک پہنچتی تو کسی تیر کا روپ بھر لیتی جس کی گھومتی ہوئی سلائیاں بلے باز کو ذرا سا بھی غافل پا کر وکٹوں کو نشانہ بنا لیتی۔
آسٹریلیا کے گلین میک گرا کو آئیڈیل ماننے والے عمر نے ابتدا سے ان ہی طرح بولنگ کی۔ اگر میک گرا کو مسٹر سینٹی میٹر کہا جاتا تھا تو عمر گل بھی کم نہ تھے۔ ایک متوازن رن اپ اور بھرپور جسمانی قوت کے ساتھ ان کی گیندیں انتہائی نپی تلی ہوتی تھیں۔ وہ آف کٹر اور ان سوئنگ کے ماسٹر تھے، دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں کو وہ ان سوئنگ بولنگ پر دھول چٹا چکے ہیں۔
عمر کے کیریئر کی ابتدا 2003 میں بنگلہ دیش کے خلاف ہوئی تھی۔ اپنی پہلی ہی سیریز میں 15 وکٹیں لے کر وہ ٹیم میں مستقل جگہ کے امیدوار بن گئے تھے۔ 2004 میں بھارت کے خلاف لاہور میں شاندار بولنگ ان کے ٹیسٹ کیریئر کا یادگار موقع تھا۔ ایک ٹیسٹ خسارے میں جانے کے بعد پاکستان ٹیم پر ہوم سیریز میں سیریز برابر کرنے کا دباؤ تھا۔
ایسے میں اس وقت دنیا کے تین بہترین بلے باز وریندر سہواگ، راہول ڈراوڈاور سچن تندلکر بھارتی ٹیم میں تھے لیکن جس مہارت سے عمر نے بولنگ کی اور ان تینوں کو کچھ ہی رنز پر پویلین پہنچایا اس پر تمام مبصرین حیران ہوگئے تھے۔ 31 رنز دے کر پانچ وکٹوں کی کارکردگی نے بھارتی ٹیم کو ٹیسٹ کے پہلے ہی دن شکست کی راہ پر گامزن کردیاتھا۔ جو وار عمر گل نے پہلی اننگز میں لگایا تھا اس کی کاٹ دوسری اننگز تک قائم رہی اور پاکستان ٹیسٹ جیت گیا۔
اس ٹیسٹ کے دوران ہی انھیں کمر میں تکلیف ہوئی اور پھر سارے کیریئر میں وہ اور کمر کے زخم ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ اس کے بعد وہ کئی کئی ماہ کرکٹ سے دور رہے لیکن جب بھی واپس آئے تو دھوم مچا دی۔
2009 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ
اگر شاہد آفریدی کی آل راؤنڈ کارکردگی نے ورلڈ کپ کی جیت کو ممکن بنایا تو عمر گل کی بولنگ نے اسے آسان تر کردیا۔ ہر میچ میں جب وہ 10 اوورز کے بعد بولنگ کرنے آتے تو بلے بازوں کے لیے امتحان بن جاتے۔
پرانی گیند سے انگلینڈ کے موزوں موسم میں ان کی سوئنگ یارکر نے مخالف ٹیموں پر سکہ جما دیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف صرف چھ رنز دے کرپانچ وکٹوں نے سب کو حیران کردیا۔ پہلے میچ سے فائنل تک وہ مستقل مزاجی سے لائن اور لینتھ پر بولنگ کرتے رہے۔
2010 کا دورہ انگلینڈ
نشیب وفراز کا شکار دورہ انگلینڈ سٹہ بازی کے واقعے کے باوجود عمر گل کے لیے بہت اچھا رہا۔ اس سیریز میں متعدد بار انھوں نے بیٹنگ میں بھی جوہر دکھائے اور متعددعمدہ اننگز کھیلیں۔
اسی سیریز میں ون ڈے میچز میں بھی وہ مسلسل عمدہ بولنگ کرتے رہے۔ اوول کے دوسرے میچ میں پرانی گیند سے ریورس سوئنگ نے پاکستان کو جیت دلائی تھی۔
ٹی ٹوئنٹی کے بہترین بولر
اپنی نپی تلی بولنگ کے باعث وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں ہمیشہ مقبول رہے۔ جب آئی پی ایل کا آغاز ہوا تو کولکتہ نائٹ رائڈرز نے انھیں منتخب کیا تھا۔ وہ ایک مکمل سیزن کھیلے۔
آسٹریلیا کی بگ بیش سیریز میں بھی وہ ویسٹرن آسٹریلیا کی طرف سے کھیلے جبکہ انگلینڈ میں سسکس کاؤنٹی کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کی بہترین کارکردگی کے اعتراف میں آئی سی سی نے 2013 میں انہیں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے بہترین بولر ایوارڈ سے نوازا۔
فٹنس کے مسائل
عمر جتنے اچھے بولر تھے اتنے ہی ان کے فٹنس کے مسائل رہے۔ ان کی کمر کی تکلیف نے انھیں اکثر میدان سے دور رکھا۔ اپنےعروج پر ہی وہ ان مسائل کا شکار ہوگئے تھے، جس نے آخری دن تک ان کو اپنی لپیٹ میں رکھا۔ اسی وجہ سے ان کے اعداد وشمار ان کی شاندار بولنگ کی عکاسی نہیں کرتے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 163 اور ون ڈے میں 179 وکٹیں کسی بھی طرح ان کے شایان شان ںہیں لیکن وہ جتنی بھی کرکٹ کھیلے ٹیم کے لیے لیڈنگ رول انجام دیتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ روز جب انھوں نے اپنا آخری میچ کھیلا تو اپنی ٹیم کے لیے کچھ کر نہ سکے۔ ان کی آرزو تو ہوگی کہ جاتے جاتے گلے میں ہاروں کے ساتھ تمغے بھی پہن جائیں لیکن ہار تو ملی مگر آگے کا راستہ نہیں۔ ساتھی کھلاڑیوں اور خالی سٹیڈیم میں موجود گنے چنے چند لوگوں نے عمر گل کو آخری میچ میں جذباتی انداز میں الوداع کیا۔
انہیں روایتی گارڈ آف آنر کرکٹ کا بیٹ اٹھا کر پیش کیا گیا۔ شاید عمر اس سے زیادہ کے مستحق تھے لیکن حسب روایت بورڈ کی جانب سے کسی نے بھی اس موقعے پر موجود رہنے کی زحمت نہیں کی اور نہ کسی یادگاری تقریب کا اہتمام کیا۔ محض ایک شیلڈ اور ایک غیرمعروف کمنٹیٹر سے چند الفاظ توہین تو ہوسکتے ہیں تحسین نہیں۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے عمر گل، جنہوں نے پورے کیریئر میں اپنی بولنگ سے ملک کا نام بلند کیا جب آخری میچ کھیل رہے تھے تو بہت تنہا تھے۔
شاید کہیں ان کے دل میں ایک آرزو تڑپ رہی ہو کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ بھی اس موقعے پر ان کے خاندان کےافراد کو مدعو کرتا اور ان کے اس دن کو یادگار بناتا لیکن پی سی بی سے ایسی کوئی امید رکھنا عبث ہے۔
ایک خوش مزاج فاسٹ بولر کو اب دنیائے کرکٹ میدان میں نہیں دیکھ سکے گی لیکن ان کی بولنگ کی کاٹ بلے بازوں کو برسوں یاد رہے گی۔