پاکستان تحریک انصاف کا پشاور میں تقریباً 68 ارب روپے کی لاگت سے بننے والا بس ریپیڈ ٹرانسٹ (بی آرٹی) منصوبہ گذشتہ ایک ماہ سے بسوں میں لگنے والی آگ کے واقعات کے باعث بند ہے۔
بی آر ٹی انتظامیہ کے مطابق بسیں بنانے والی کمپنی کی ٹیکنیکل ٹیم پاکستان میں موجود ہے اور بسوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق ٹیم بسوں میں ایک پرزہ تبدیل کر رہی ہے تاکہ آگ لگنے کے واقعات کو روکا جا سکے۔
تاہم بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ منصوبہ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد ہی بسوں میں آگ لگنے جیسے واقعات کیوں ہوئے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کو کچھ ایسی دستاویزات ملی ہیں، جس میں بی آر ٹی بسیں بنانے والی کمپنی ’گولڈن ڈریگن‘ کے بسیں بنانے کے تجربے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
بی آر ٹی بسوں کی بولی میں حصہ لینے والی ایک چینی کمپنی ’ژینگزو یوتنگ‘ نے خیبر پختونخوا حکومت کو 2018 میں خط لکھا تھا، جس میں کمپنی نے بولی کا عمل مکمل ہونے پر بی آر ٹی انتظامیہ سے وضاحت طلب کی تھی کہ ان کی کمپنی کو، جو ان کے مطابق چین کی بسیں بنانے والی چھ کمپنیوں میں سے ایک ہے، کیوں بولی میں ناکام قرار دیا گیا اور کیسے ایک ’نا تجربہ کار‘ کمپنی کو یہ پراجیکٹ دیا گیا۔
خط کے مطابق: ’بولی کے عمل میں قواعدو ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا اور من پسند اور نا اہل کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا۔‘ خط میں تفصیل سے وضاحت کی گئی کہ کیسے وہ کمپنی اہل تھی اور گولڈن ڈریگن کمپنی، جس کو ٹھیکہ دیا گیا تھا، وہ ’نااہل‘ کمپنی تھی۔
اس کمپنی نے خط میں مزید لکھا کہ ’بڈنگ دستاویز کے سیکشن تین کے مطابق بی آر ٹی بسوں کو بنانے والے کمپنی کے لیے ایسی بسیں بنانے میں تقریباً تین سال کا تجربہ درکار تھا۔ تاہم چائنہ آٹو موبیل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے مطابق جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا، انھوں نے 2011 سے لے کر 2017 تک پانچ سالوں میں کوئی بھی 18 میٹر کی ہائبرڈ بس نہیں بنائی جبکہ اس کے مقابلے میں یوتنگ نے، جس کو بڈنگ میں نا اہل قرار دیا گیا، انہی پانچ سالوں میں 321 ہائبرڈ بسیں جبکہ ڈیزل پر چلنے والی 1055 بسیں بنائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی طرح بڈنگ کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی کہ اس کمپنی کو ٹھیکہ دیا جائے گا جس نے گذشتہ تین سالوں میں کم از کم 75 ہائبرڈ بسیں بنائی ہوں۔ تاہم جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا وہ اس شرط پر بھی پوری نہیں اترتی اور بڈنگ کے مطابق اس کو نااہل قرار دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔‘
خط میں خیبر پختونخوا حکومت سے درخواست کی گئی کہ موجودہ بولی کو منسوخ کیا جائے اور سارے عمل کو ازسر نو کیا جائے تاکہ اہلیت کی حامل کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا جائے۔ خط کے مطابق یوتنگ کمپنی جس کو نااہل قرار دیا گیا 2016 میں مختلف قسم کی تقریباً 70 ہزار بسیں بنا چکی ہے اور بین الاقوامی سطح کی رینکنگ میں گذشتہ چھ سالوں سے اول نمبر پر ہے۔
بی آر ٹی انتظامیہ اور حکومتی موقف
بی آر ٹی کو چلانے والے سرکاری ادارے ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بولی شفاف طریقے سے ہوئی اور جو کمپنیاں بولی میں ناکام رہیں، ان کو قواعد کے مطابق جواب دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو کمپنی بولی کی شرائط پر پورا اترتی تھی، اسی کو کامیاب جبکہ جو شرائط پر پورا نہیں اترتی اس کو ناکام تصور کیا گیا تھا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اس کمپنی نے خط میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کیوں ایک ایسی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا جو شرائط پر پورا نہیں اترتی تھی تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اپنا موقف دے دیا ہے کہ بولی شفاف طریقے سے کی گئی۔‘
اس حوالے سے صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بسوں کی ٹینڈرنگ کا عمل ایشیائی ترقیاتی بینک کے قواعط و ضوبط کے مطابق بالکل شفاف طریقے سے کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے چینی کمپنی کے خط کے بارے میں کہا کہ ایسے خطوط آتے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں بسوں کے ٹھیکے کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کیا گیا تھا۔