اتوار کو لاہور کے حفیظ سینٹر کی 904 دکانوں میں سے دوسری، تیسری اور چوتھی منزل کی کل 222 دکانیں آگ کی لپیٹ میں آئی تھیں اور ان دکانوں میں موجود موبائل فونز، لیپ ٹاپس، ایل سی ڈیز اور دیگر الیکٹرونک سامان جل کر خاکستر ہوگیا تھا، تاہم پلازہ کی کلیئرنس کے دوران انکشاف ہوا کہ دکانوں میں موجود کروڑوں روپے کی نقدی بھی جل گئی ہے۔
حفیظ سینٹر ٹریڈرز لیگ کے نائب صدر محمد شہزاد بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’کچھ تاجروں نے اپنی دکانوں میں کافی زیادہ نقدی رکھی ہوئی تھی اور کچھ نے کم۔ مگر کافی تاجروں کی نقد رقم جل گئی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دکانوں میں کروڑوں روپے موجود تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’کئی تاجروں نے بتایا ہے کہ ان کی دکانوں میں تجوریوں میں موجود 20 سے 30 لاکھ روپے کا کیش بھی جل گیا ہے۔ ہم نے تمام متاثرین کو ایک فارم دیا ہے جس میں وہ اپنی جلنے والی اشیا اور نقدی کی تفصیلات درج کریں گے، جس کے بعد ہم نقصان کا تخمینہ لگا سکیں گے جس میں ایک دو روز لگ جائیں گے۔ اس کے بعد ہم اپنے نقصان کا تخمینہ میڈیا اور متعلقہ حکام کے سامنے رکھیں گے۔‘
کچھ تاجروں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عموماً ہر دکان میں کم سے کم ایک لاکھ روپے کا کیش تو لازمی موجود ہوتا ہے جبکہ بڑی دکانوں کی تجوریوں میں لاکھوں کی نقدی ہر وقت موجود ہوتی ہے۔
تاجر اتنا پیسہ دکانوں میں آخر رکھتے کیوں ہیں؟
اس حوالے سے ماہر اقتصادیات قیس اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک زمانے میں ایک قانون پاس کیا تھا جو اب موجود نہیں ہے، تاہم اس قانون کے مطابق بینکوں کی ٹرانزیکشن کے لیے آپ کو ود ہولڈنگ ٹیکس صفر اعشاریہ چھ فیصد کے ساتھ ٹیکس فائلر ہونا پڑے گا۔ اسی ٹیکس سے بچنے کے لیے تاجروں کو یہ عادت پڑ گئی کہ وہ اپنی رقوم یا تو ڈالروں کی شکل میں یا نقدی کی شکل میں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اور بینکوں کی بجائے براہ راست پیسے کی ٹرانزیکشن کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ تاجر کیش گھر نہیں لے جاسکتے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی بیویوں کو بھی نہیں بتانا چاہتے کہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ دوسرا ان کو راستے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کا ڈر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اپنی دکانوں یا دفتروں میں ہی تجوریوں میں پیسہ رکھتے ہیں، لیکن زیادہ تر تو ٹیکس سے بچنے کے لیے تاجر پیسہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ کچھ تاجر جو فائلر ہیں وہ یہ بھی کرتے ہیں کہ اگر انہیں پیسہ بینک میں رکھوانا بھی ہے تو وہ ہر روز پیسے کو بینک نہیں لے کر جاتے بلکہ پورے ہفتے کی کمائی کو ہفتے کے آخری یا اگلے ہفتے کے پہلے دن بینک میں جمع کروا دیتے ہیں۔‘
دوسری جانب حفیظ سینٹر میں آگ لگنے کے تین روز بعد ضلعی انتظامیہ نے تاجروں کو جلی ہوئی عمارت کے اندر جا کر اپنی دکانوں کو دیکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔