سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تفصیلی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کرپشن کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کو ’آئین اور قانون کے خلاف‘ قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے رواں برس جون میں مذکورہ درخواستوں کی سماعت کے بعد ریفرنس خارج کردیا تھا اور مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں اور ٹیکسوں سے متعلق معاملات کو سدھارنے کی ہدایت کی تھی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جمعے کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر عدالتی ریفرنس قانون کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے دائر کیا گیا تھا۔
دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس فیصل عرب نے الگ الگ اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔
تفصیلی فیصلے کا آغاز قرآن کی سورہ النسا کی آیات سے کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں واضح غلطیاں اور بے ضابطگیاں پائی ہیں تاہم صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے ریفرنس دائر کرنے کے پیچھے کوئی برا ارادہ شامل نہیں تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ صدر مملکت آئین کے تحت اپنی صوابدید پر عمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں جبکہ ریفرنس دائر کرنا قانون اور آئین کے منافی تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ ہماری عدلیہ کی آزادی اتنی کمزور نہیں ہے کہ شکایات کے ذریعے مؤثر طریقے سے دھمکی دی جاسکتی ہے یا ان کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی کے مطابق: ’ججوں کا احتساب جمہوری طور پر متحرک معاشرے کے لیے لازمی ہے۔ درحقیقت ججوں کا بلا امتیاز، قانونی اور شفاف احتساب عدلیہ کی آزادی کو مزید تقویت بخشے گا، عوامی اعتماد کو بڑھاوا دے گا اور اس طرح ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے گا۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں موجودہ درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مزید لکھا کہ وزیر قانون اور چیئرمین اثاثہ جات ریکوری یونٹ، ایف بی آر اور انکم ٹیکس کے عہدیداروں سے غیر قانونی طور پر جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے ان کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس کے ان عہدیداروں کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے جنہوں نے خفیہ معلومات غیر قانونی طریقہ سے وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو کو مہیا کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب جسٹس فیصل عرب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ’جسٹس فائز عیسیٰ کی شہرت بہت اچھی ہے تاہم جب مالی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا ہے تو ان پر اور ان کی اہلیہ پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس داغ کو دور کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’قانون کے تحت صدارتی ریفرنس غیر قانونی قرار دینے کے بعد 19 جون 2020 کے مختصر فیصلے میں فراہم کردہ طریقہ کار کو اپنائے بغیر درخواست گزار کو پوری طرح الزامات سے بری نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جب اس عدالت نے اپنے مختصر حکم میں کمشنر انکم ٹیکس اور ایف بی آر کو غیر ملکی اثاثوں کے اعلان نہ کرنے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی تو اس نے یہ سپریم جوڈیشل کونسل پر چھوڑ دیا تھا کہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ آیا اس طرح کی رپورٹ میں کافی معلومات موجود ہیں کہ انکوائری کا آغاز آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت کیا جاسکے۔‘
انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے بنائے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کے بنانے والوں نے ججوں کا احتساب عدلیہ کے اندر ہی چھوڑ دیا تھا تاکہ اس عمل میں کسی قسم کا سیاسی عمل دخل نہ ہونے پائے۔‘
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مختصر فیصلے کے ذریعے مسز سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں، جو پاکستان میں ٹیکس دہندگان ہیں، کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے میں درخواست دہندہ کی طرف سے ان کے خلاف کرپشن ریفرنس کے پیچھے مبینہ بدنیتی کی موجودگی کے الزام پر تفصیلی بحث کی گئی اور بینچ اس نتیجے پر پہنچا کہ درخواست دہندہ بدنیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
فیصلے نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور بیرسٹر شہزاد اکبر کی اس کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کو بھی کسی قسم کے قانون کی خلاف ورزی سے بالا تر قرار دیا۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس الزام کو بھی رد کر دیا گیا کہ بحیثیت سپریم کورٹ جج ان کی نگرانی کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی درخواست میں اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے کرپشن ریفرنس میں حقائق سے متعلق اور دوسری غلطیوں کی نشاندہی بھی کی تھی، جس پر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ صدارتی ریفرنس کو حقائق اور قانون سے متعلق غلطیوں سے پاک اور سنجیدہ اور تصدیق شدہ معلومات پر مشتمل ہونا چاہیے۔
جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کیا تھا؟
صدارتی ریفرنس میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور ایف بی آر کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود اہلیہ اور بیٹے کے نام جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ 'ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، لہذا ان کی جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔'
انہوں نے خط میں مزید کہا تھا کہ 'ٹیکس حکام نے انھیں کبھی اس حوالے سے کوئی نوٹس نہیں دیا، لہذٰا ان کے خلاف ریفرنس سےحکومت کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔'
اس سلسلے میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے یہ ساری تفصیلات فراہم کیں کہ انہوں نے لندن میں جائیداد کب اور کیسے خریدی اور اس کے لیے رقوم کہاں سے آئیں۔
عدالت عظمیٰ نے سرینا عیسیٰ کے جوابات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کا ایف بی آر کا ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا، جسے دیکھنے کے بعد جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔