امریکی محکمہ انصاف صدارتی معافی کے عوض وائٹ ہاؤس کو رقم دینے سے متعلق ایک ممکنہ جرم کی تحقیقات کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس بات کا انکشاف وفاقی عدالت میں عدالتی دستاویزات کھلنے کے بعد سامنے آیا۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج بیرل ہاؤیل نے منگل کو ایک ترمیمی حکم میں اس عمل کو ’معافی کے لیے رشوت‘ لینے کی سکیم قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا حکم جاری کیا۔
18 صفحات پر مشتمل دستاویز کا تقریباً نصف حصہ خفیہ رکھا گیا ہے جب کہ عوامی سطح پر دستیاب ورژن میں مبینہ سکیم کی کچھ تفصیلات فراہم کی گئیں مگر ممکنہ طور پر اس میں ملوث افراد میں سے کسی کا نام نہیں لیا گیا۔
دستاویز کے مطابق واشنگٹن میں وفاقی استغاثہ نے کہا کہ انہیں رشوت ستانی کی سکیم کا ثبوت ملا ہے جس میں کسی بھی ’صدارتی معافی یا سزا میں چھوٹ‘ کے بدلے خاطر خواہ سیاسی امداد کی پیش کش کی گئی تھی۔
جج کے حکم نامے میں کہا گیا کہ استغاثہ ایک ’خفیہ لابنگ سکیم‘ کی بھی تحقیقات کر رہی ہے جس میں دو نامعلوم افراد نے غیرقانونی طور پر ’وائٹ ہاؤس کے سینیئر عہدے داروں کے ساتھ لابیسٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ محکمہ انصاف نے جج ہاؤیل سے شناخت ظاہر نہ کیے گئے وکیل اور ان کے مؤکل کے مابین کی گئیں کچھ ای میلز دیکھنے کی اجازت مانگی تھی۔
ہاؤیل نے اگست میں یہ درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ ’وکیل اور موکل کا استحقاق‘ اس صورت میں لاگو نہیں ہوتا ہے۔ استغاثہ نے کہا تھا کہ وہ ان ای میل رابطوں کو ان تین نامعلوم افراد سے پوچھ گچھ کے لیے استعمال کریں گے تاکہ ان کی تحقیقات ختم ہو سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاؤیل کے حکم کے مطابق سرکاری تفتیش کاروں نے بتایا کہ انہوں نے ’50 سے زیادہ ڈیجیٹل ڈیوائسز ضبط کیں جن میں آئی فون، آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، تھم ڈرائیو، کمپیوٹرز اور ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیوز شامل ہیں۔‘
محکمہ انصاف کے ترجمان نے فوری طور پر اس پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ وفاقی جرائم میں سزا یافتہ افراد کو معافی دینے کے لیے امریکی صدور کے پاس آئین طور پر وسیع اختیارات ہوتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے اپنے سابق قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کو معاف کردیا جنہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کے دوران دو بار ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے آخری ہفتوں کے دوران ان سے اسی بات کی توقع کی جا رہی تھی۔
ہاؤیل کے حکم کے مطابق محکمہ انصاف نے حال ہی میں انہیں بتایا تھا کہ وہ تحقیقات کو عوامی سطح پر شائع ہونے سے روکنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں شامل افراد پر ابھی تک الزام عائد نہیں کیا گیا۔