پاکستان کے صوبہ سندھ سے لاپتہ افراد کے لواحقین اور سندھ سبھا نامی تنظیم کے پیدل مارچ کو گذشتہ ہفتے پنجاب اور سندھ کی سرحد پر روکے جانے کے بعد حراست میں لیے گئے تنظیم کے سربراہ سندھی انعام عباسی سمیت دیگر افراد کی بازیابی کے لیے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال شروع کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ سبھا نامی تنظیم نے سندھ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 10 نومبر کو کراچی سے ایک پیدل لانگ مارچ شروع کرکے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کریں گے۔
کراچی سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کے شرکا کراچی، حیدرآباد، بھٹ شاہ اور دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے 29 دسمبر کو پنجاب کی جانب سندھ کے آخری ضلعے گھوٹکی پہنچے،جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔
گھوٹکی سے اس لانگ مارچ کو پنجاب میں داخل ہونا تھا مگر سندھ کے آخری شہر اوباڑو کی پولیس نے مارچ کو پنجاب میں داخل ہونے سے روک دیا۔
سندھ سبھا کے نائب صدر ڈاکٹر نذیر کھوکھر کے مطابق تنظیم کے صدر سندھی انعام عباسی سمیت متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہریوں کی مداخلت پر خواتین کو تو رہا کردیا گیا مگر تاحال سندھی انعام عباسی سمیت پانچ رہنماؤں کو رہا نہیں کیا گیا۔
سندھ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ کئی ماہ سے جدوجہد کرنے والی سندھ سبھا کے نائب صدر ڈاکٹر نذیر کھوکھر نے بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور اوباڑو پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے رہنماؤں کی آزادی کے خلاف حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر نذیر کھوکھر کے مطابق: 'اس احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہے، جو علامتی بھوک ہڑتال کررہی ہیں، جب کہ اوباڑو پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے نور ڈاہری کے والد حسین بخش ڈاہری کے علاوہ اصغر شیخ، غلام شبیر اور شعیب چانڈیو سمیت چار افراد تادم مرگ بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔'
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حراست میں لیے گئے رہنماؤں کو آزاد جبکہ لاپتہ افراد کو بھی جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔
تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے والے حسین بخش ڈاہری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم سندھ کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پرامن طریقے سے احتجاجی مارچ کررہے تھے، مگر پرامن مارچ کو بھی طاقت کے زور پر روکا گیا، خواتین کی تذلیل کی گئی اور ہمارے رہنماؤں کو بلاجواز گرفتار کیا گیا۔ مرنا تو سب نے ہے، تو کیوں نہ اپنے پیاروں کی آزادی کے لیے بھوک ہڑتال کرتے مروں، اس لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔'
اس سلسلے میں حکام کا موقف لینے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے رابطہ کیا گیا تو ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا.
اس سلسلے میں بار بار رابطہ کرنے کے باجود بھی صوبائی وزیر سعید غنی سے بات نہ ہوسکی۔