ہم پاکستان کیوں واپس آئیں؟

وزیرِ اعظم عمران خان نے سات سال پہلے ہزارہ برادری پر ہونے والی ایک حملے کی مذمت کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’ریاست کہاں ہے؟‘ عوام یہی سوال 73 سالوں سے پوچھ رہے ہیں۔

ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ (اے ایف پی فائل)

پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے ہیں۔ دیگر طریقوں سے باہر گئے افراد کا اس میں شمار نہیں کیا گیا۔

ان افراد میں  میں ایک بڑی تعداد ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے جو پاکستان میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے باہر چلے جاتے ہیں۔ اسے ’برین ڈرین‘ کہتے ہیں۔ اگر انہیں پاکستان میں مناسب مواقع دستیاب ہوں تو ان کی قابلیت سے پاکستان بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پر افسوس، ہمارا ملک اور اسے چلانے والے ان نوجوانوں کی ذرا بھر بھی قدر نہیں کرتے۔

اگر ایسے کہا جائے کہ پاکستان کو ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہو گی۔ ایک کی جگہ سینکڑوں نئے پاکستانی لے لیتے ہیں۔ پاکستان کو تو ان کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن انہیں پاکستان رہنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ انہیں گھر بنانا ہے، ماں باپ کو حج کروانا ہے، بہن بھائیوں کی یونیورسٹیوں کی فیسیں بھرنی ہیں اور ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں۔ یہ سب کام ایک عام آدمی پاکستان میں رہتے ہوئے نہیں کر سکتا۔

یہ پاکستان واپسی کا سوچیں بھی تو کیوں؟ پاکستان انہیں کیا دیتا ہے؟ ہمارے تو وزیرِ اعظم کہہ چکے کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ ہم انہیں بہتر روزگار تو کیا ان کی زندگی کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے۔

22 سال کے لڑکے کے جسم میں لگی 22 گولیاں انہیں کیا پیغام دیتی ہیں؟ یہی کہ جہاں ہو وہیں رہو، واپسی کا نہ سوچو، ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہو گا۔

پاکستان آ کر کہیں کام سے لگ بھی جائیں تو وہاں ان کی حفاظت کون کرے گا؟ ہزارہ برادری کے 11 افراد کا قتلِ عام انہیں کیا بتاتا ہے؟ یہی کہ تم لوگ بھی چُن چُن کر مارے جائو گے اور ہم سوائے مذمتی بیان جاری کرنے کے اور کچھ نہیں کریں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیرِ اعظم عمران خان نے سات سال پہلے ہزارہ برادری پر ہونے والی ایک حملے کی مذمت کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’ریاست کہاں ہے؟‘ عوام یہی سوال 73 سالوں سے پوچھ رہے ہیں۔ کہاں ہے وہ ریاست جس نے ان سے ان کے جان و مال کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا؟

عورتوں کی بات کی جائے تو ان کا عورت ہونا ہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے انہیں بتایا ہوا ہے کہ ہم ان کی جتنی عزت کرتے ہیں، دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی قوم نے عورت کی اتنی عزت نہیں کی۔ یہ عورتیں ملک سے باہر جاتی ہیں تو انہیں عزت اور تحفظ کے اصل معنی معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں پہلی بار اپنے انسان ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یہ احساس چھوڑ کر پاکستان واپس کیوں آئیں؟

ان عورتوں کے لیے پاکستان کے پاس کیا ہے؟
ایسے مرد جو انہیں ہراساں کریں؟
یا ایسے مرد جو ان کا ریپ کریں؟
یا ایسا معاشرہ جو ان کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم اور ہر زیادتی کا قصور وار انہی کو ٹھہرائے؟

موٹر وے ریپ کیس پرانی بات تو نہیں۔ اس سے پہلے بھی سینکڑوں واقعات ہوئے اور اس کے بعد بھی ہو رہے ہیں۔ کب کس کی باری آ جائے، کون جانتا ہے؟ یہ عورتیں پاکستان واپسی کا فیصلہ کیسے کریں؟

ہم نے انہیں شکایت کرنے کا حق تو دیا ہے مگر اس حق کو حاصل کرنے کا حق نہیں دیا۔ وہ اس حق کو استعمال کرنا چاہیں تو ہم فوراً انہیں ان کی حیثیت یاد دلا دیتے ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے موقع ہی کیوں دیا تھا اور ان کے مجرم کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازتے ہیں۔ پھر بھی تسلی نہ ہو تو ان عورتوں کے خلاف ڈرامے اور فلمیں بناتے ہیں۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی لڑکی یا عورت ہو جسے زندگی میں کبھی ہراسانی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اپنے موجود کسی لڑکی یا عورت سے پوچھ لیں وہ آپ کو ان گنت واقعات بتائے گی۔ آپ کو ایسی عورتیں تو بہت مل جائیں گی پر انہیں ہراساں کرنے والے مرد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔

مرد اس حوالے سے بہتر ہیں کہ ان کی پریشانی بس اپنے جان بچانے اور اچھے روزگار کے حصول تک محدود ہوتی ہے۔ عورتوں کو دس اور چیزیں بھی دیکھنی پڑتی ہیں۔ ان کی وطن واپسی کا مطلب ان کا خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔

وہ کیوں وطن واپس آئیں؟ پاکستان انہیں کیا دے رہا ہے؟ جو لوگ ملک سے باہر ہیں وہ ملک میں رہنے والوں سے بہتر ہیں کہ وہ اپنی زندگی سکون سے گزار رہے ہیں۔ اگرچہ ہر پل انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ کچھ ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہ واپس آنا چاہیں تو کیسے آئیں۔ وہ تو اپنے ملک سے سوال بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ پہلے وہ ملک کے لیے کچھ کریں پھر ملک سے کچھ مانگیں۔

تو بھیا، ہم تو بہت کچھ کر چکے۔ اب تم بتاؤ، تمہارے پاس ہمارے لیے کیا ہے؟

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ