پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط میں اصلاحات کی منظوری دے دی۔
ان اصلاحات کی منظوری وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی جبکہ ان کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے بدھ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کیا۔
شفقت محمود نے کہا کہ سرکاری ملازمین سے متعلق پالیسیوں میں ابہام اور درستگی نہ ہونے کی صورت میں نظام ریاست صحیح انداز میں چلانا مشکل ہو جاتا ہے اور اسی لیے حکومت نے سرکاری ملازمین سے متعلق قوانین اور قواعد میں اصلاحات متعارف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
وفاقی وزیر نے سرکاری ملازمین سے متعلق قوانین اور قواعد میں مندرجہ ذیل تبدیلیوں کی منظوری دی ہے۔
1۔ سرکاری ملازمین کی ترقی کے لیے جائزہ لینے والے بورڈ (evaluation board) کو زیادہ (30 فیصد) اختیارات دیے گئے ہیں جبکہ سالانہ کارکردگی رپورٹ اور تربیتی کورسز کے نمبر بالترتیب 40 اور 30 فیصد ہوں گے۔
2۔ کسی سرکاری ملازم کے خلاف نیب، ایف آئی اے یا کسی دوسرے ادارے میں کرپشن سے متعلق زیر سماعت مقدمہ ہونے کی صورت میں اس سرکاری ملازم کو ترقی کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
3۔ سرکاری ملازم کی ترقی پر غور کیا جا سکتا ہے، اگر اس کے خلاف کرپشن کیس تین سال سے زیر سماعت ہو۔
4۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں 20 گریڈ کے ملازمین کے بارے میں فیصلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سربراہ اور 17 سے 19 گریڈ کے افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ محکمے کے سیکریٹری کریں گے۔
5۔ کسی سرکاری ملازم کی یکے بعد دیگرے تین سالانہ کارکردگی رپورٹس (اے سی آرز) اوسط درجے یا اس سے کم ہوں تو یہ اس ملازم کی قبل از وقت سبکدوشی کی وجہ بن سکتی ہے۔
6۔ پروموشن بورڈ کسی سرکاری ملازم کو یکے بعد دیگرے تین مرتبہ ترقی نہ دینے کا فیصلہ کرے تو یہ بھی اس ملازم کی قبل از وقت سبکدوشی کی وجہ بن سکتی ہے۔
7۔ سرکاری ملازمین کرپشن ریفرنس میں پلی بارگین یا رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی کی صورت میں قبل از وقت سبکدوشی کا سامنا کرسکتے ہیں جبکہ ان کے خلاف تادیبی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔
8۔ کردار یا کسی دوسری اخلاقی کمزوری بھی سرکاری ملازم کے لیے قبل از وقت سبکدوشی کی وجہ بن سکتی ہے۔
9۔ سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کے ہر مرحلے کے لیے وقت مخصوص کر دیا گیا ہے جس کے باعث ہر انکوائری مجموعی طور پر 105 دن میں مکمل ہو گی۔
انکوائری کا سامنا کرنے والا ملازم 14 روز میں پہلی وضاحت کا جواب دے گا جبکہ انکوائری کمیٹی 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی اور اگلے 30 روز میں مجاز افسر فیصلہ سنانے کا پابند ہو گا۔
10۔ کسی سرکاری ملازم کے خلاف ایک سے زیادہ تحقیقات کی صورت میں تمام کیسز کو اکٹھا کرکے ایک افسر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
11۔ صوبوں میں تعینات پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کے خلاف انکوائری صوبائی چیف سیکریٹری کے علاوہ سٹیبلیشمنٹ ڈویژن بھی کر سکے گا۔
12۔ بی پی ایس 17 سے نیچے گریڈ کے سرکاری ملازمین کی بھرتیاں اخباری اشتہارات یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کی جا سکتی ہیں۔
13۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور پاکستان پولیس سروس افسرکی ایک صوبے میں تعیناتی کی مدت تین سال اور ہارڈ ایریا میں دو سال ہو گی، جبکہ ایک افسر مجموعی طور پر دس سال سے زیادہ ایک صوبے میں کام نہیں کر سکے گا۔ ہر افسر کی صوبوں کے علاوہ وفاق میں بھی تعیناتی ضرور ہو گی۔
14۔ ان دونوں سروسز کے افسران کی ترقیوں کو روٹیشن پالیسسی سے منسلک کر دیا گیا۔
15۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس میں ملازمین کی تعداد بھی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔