پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ذیلی ادارے کی ملکیت، امریکی شہر نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل اور فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع ہوٹل سکرائب کی قسمت کا حتمی فیصلہ ابھی تک ہوا میں معلق ہے۔
دونوں ہوٹل، جو قومی ایئر لائن کے ذیلی ادارے پی آئی اے انویسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے آئی ایل) کی ملکیت ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی ایل) کی ہائی کورٹ آف جسٹس کے ایک فیصلے کے تحت عدالت کے پاس گروی ہیں اور مستقبل میں انہیں معدنیات تلاش کرنے والی بین الاقوامی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے صوبہ بلوچستان میں تانبے اور سونے کی تلاش کے ٹھیکے کی منسوخی کے نتیجے میں ہونے والا نقصان پورا کرنے کے لیے پاکستانی ملکیت کے دونوں ہوٹلوں کی حوالگی کا مقدمہ بی آئی وی ہائی کورٹ آف جسٹس میں دائر کر رکھا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی حکام نے گروی شدہ ہوٹل روزویلٹ اور ہوٹل سکرائب پیرس کی عدالتی حکم کے تحت ٹیتھیان کاپر کمپنی کو ممکنہ حوالگی سے بچانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
پی آئی اے آئی ایل کے ایک سینئیر عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں ہوٹلوں کو قرقی سے بچانے اور معاملہ عدالت سے باہر نمٹانے کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'گذشتہ پیشی پر مخالف وکیل نے دونوں ہوٹلوں کی مالیت کا اندازہ لگانے کے لیے وقت مانگا جبکہ ہمارے وکیل نے بھی مزید وقت کی درخواست کی تھی۔'
قانونی ماہرین کے خیال میں دونوں ہوٹلوں کے قضیے کا بہترین حل عدالت سے باہر ہی ممکن ہے، جیسا کہ اس طرح کے مقدمات میں اکثر ہوتا ہے۔
'کمپنی دونوں ہوٹل حاصل کرکے بھی نقصان پورا نہیں کرسکے گی'
برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے پاکستانی نژاد وکیل قمر بلال ہاشمی کا کہنا تھا کہ فریقین کو ثالثی کا موقع مل گیا ہے اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا کسی صورت میں عقلمندانہ فعل قرار نہیں دیا جا سکے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ثالثی کی صورت میں معاملہ بہتر انداز میں سلجھ جائے گا اور اس میں دونوں فریقین کو فائدہ پہنچے گا۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے قمر بلال ہاشمی نے کہا کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی دونوں ہوٹل حاصل کرکے بھی اپنا نقصان پورا نہیں کر سکے گی جبکہ ہوٹلز کی مالک کمپنی دو بہترین جائیدادوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
انہوں نے کہا: 'دونوں ہوٹلوں کی موجودہ مجموعی قیمت ڈیڑھ ارب ڈالر تک ہی بنے گی جبکہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کا دعویٰ چھ ارب ڈالر کا ہے۔'
چند روز قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ وہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اس کے اثاثے ہیں، ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔'
دوسری جانب ایوی ایشن ڈویژن نے روز ویلٹ ہوٹل کے معاملات کی درستگی کے لیے وفاقی حکومت سے ساڑھے تین کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کے فنڈز کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دو روز قبل وفاقی کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے ایک سمری پیش کی گئی جس میں معاملات پر نئے سرے سے غور کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی استدعا بھی کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ سال ایوی ایشن ڈویژن کو 14 کروڑ امریکی ڈالر اسی کام کے لیے ادا کیے تھے۔
کیس کا پس منظر
جنوری 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں سونے اور کاپر کی تلاش کرنے والی ٹیتھیان کاپر کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کر دیا تھا، جس کے باعث ٹیتھیان کاپر کمپنی نے نقصان کے ازالے کے لیے انویسٹر اسٹیٹ ڈسپیوٹ سیٹلمنٹ (آئی ایس ڈی ایس) سے رجوع کیا اور 2019 میں پاکستان کے خلاف تقریباً چھ ارب ڈالر کا دعویٰ جیت لیا۔
دنیا کے امیر ملکوں نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئی ایس ڈی ایس کا ادارہ بنا رکھا ہے۔
ستمبر 2020 میں آئی ایس ڈی ایس نے ایوارڈ کے نفاذ پر عملدرآمد پاکستان کی طرف سے بینک گارنٹی فراہم کرنے کی شرط پر روک دیا، جو حکومت پاکستان بروقت جمع نہ کرا سکی۔
اگلے ہی سال ٹیتھیان کاپر کمپنی نے آئی ایس ڈی ایس کے ایوارڈ کے نفاذ کے لیے بی آئی وی ہائی کورٹ آف جسٹس سے رجوع کیا اور اسی سال دسمبر میں عدالت نے نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل، ہوٹل سکرائب پیرس اور منہال انکارپوریٹیڈ میں پی آئی اے آئی ایل کے 40 فیصد اثاثوں کو گروی رکھ لیا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے بی آئی وی کی عدالت میں مقدمہ اس لیے کیا کیونکہ پی آئی اے اور پی آئی اے آئی ایل وہاں رجسٹر ہیں اور وہاں کی کوئی عدالت ہی ان کے خلاف مقدمہ سن سکتی ہے۔
ہوٹل کس کی ملکیت؟
پاکستان کی قومی ایئر لائن کا موقف ہے کہ روزویلٹ ہوٹل اور ہوٹل سکرائب حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی عدالت یوں گروی رکھ سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا تھا کہ دونوں ہوٹل پی آئی اے آئی ایل کی ملکیت ہیں، جو ایک سرمایہ کاری کی کمپنی ہے اور پاکستان کے عوام اس کے مالک ہیں۔
'حکومت پاکستان پی آئی اے آئی ایل کی مالک نہیں ہے بلکہ کمپنی کے اثاثوں کا محض ایک حصہ حکومتی ملکیت میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کی ملکیت کو کوئی عدالت کس طرح حکومت کے کھاتے میں گروی رکھ یا قرقی کر سکتی ہے۔
عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ فیصلہ پاکستان کا موقف سنے بغیر کیا گیا تھا اور اسی لیے وکلا نے عدالت سے مزید وقت مانگا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاملے کو سلجھانے کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی سے گفت و شنید جاری ہے اور بہتر نتائج کی امید ہے۔