نیدرلینڈز میں کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ پابندیوں کے خلاف مظاہرے سوموار کو مسلسل دوسرے دن بھی جاری رہے اور کئی شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں رپورٹ ہوئیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے اختتام پر حکومت نے کرونا (کورونا) وبا کے حوالے سے رات کے کرفیو سمیت نئی بندشوں کا اعلان کیا جس کے بعد ملک کے کئی شہروں میں مظاہرین اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
ساحلی شہر روٹرڈیم کے علاوہ دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں اور مظاہرین نے کئی دکانوں کے شیششے توڑ دیے اور ان کے سامان کو نقصان پہنچایا۔
پولیس اور میڈیا اطلاعات کے مطابق ان شہروں کے علاوہ دیگر چھوٹے شہر جیسے کہ گیلین، امیرزفورٹ، دا ہیگ، ڈین بوش میں بھی بد امنی دیکھنے میں آئی۔ ایک مقامی میڈیا نیٹ ورک کے مطابق رات 10 بجے تک پولیس نے تقریباً 70 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
گیلین شہر کی پولیس نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’ہم مظاہرے کرنے والے نوجوانوں سے مقابلہ کر رہے ہیں جو پٹاخے پھینک رہے ہیں۔‘
مقامی نیٹ ورک کے مطابق روٹرڈیم میں پولیس نے مظاہرین کے خلاف پانی والی توپ کا استعمال بھی کیا۔
شہر کے میئر احمد ابو طالب نے ہنگامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے پولیس کے اختیارات میں اضافہ کر دیا جس کے بعد انہیں گرفتاریاں کرنے کی اجازت مل گئی۔
شہری کونسل نے ٹوئٹر پر لکھا: ’سب سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔‘
سوشل میڈیا پر شہر ڈین بوش سے سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین دکانوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں اور ایک صحافی کا پیچھا کرتے ہوئے ان پر پتھر پھینکے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل وزیر اعظم مارک روٹے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’مجرمانہ تشدد‘ قرار دے چکے ہیں جبکہ پولیس کے مطابق ’گذشتہ 40 سال میں یہ بدترین فسادات ہیں۔‘
مقامی میڈیا کے مطابق ایمسٹرڈیم، اینڈہووین اور دوسرے شہروں میں پولیس نے پانی والی توپ کا استعمال کرنے کے بعد تقریباً 250 افراد کو گرفتار کر لیا۔ سوموار کو کئی ڈچ شہروں کے ناظموں نے اعلان کیا تھا کہ وہ فسادات کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔
فسادات کی پہلی رات مظاہرین نے دکانوں کو لوٹا اور گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے ایک کرونا ٹیسٹنک سینٹر کو بھی نذر آتش کر دیا۔ یہ ملک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کرفیو کا پہلا دن تھا۔
وزیر اعظم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ ناقابل قبول ہے۔ تمام افراد اس کو خوف ناک واقعے کے طور پر یاد رکھیں گے۔ یہ مظاہرے نہیں بلکہ مجرمانہ تشدد ہے اور اس کو اسی انداز میں لیا جائے گا۔‘
انہوں نے انشیڈے کے علاقے میں ہسپتال پر پتھر پھینکنے والے ’بے وقوفوں‘ کی بھی مذمت کی۔
رات نو بچے سے صبح ساڑھے چار بجے تک نافذ کرفیو 10 فروری تک جاری رہے گا اور اس خلاف ورزی کرنے والوں کو 95 یوروز تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ معاملات میں استثنیٰ دیا گیا تھا جیسے کہ کام کرنے کے لیے جانے والے افراد یا وہ افراد جنہوں نے جنازے میں شرکت کرنی ہو یا اپنے پالتو کتوں کے ساتھ چہل قدمی کرنے والے افراد بشرط وہ اس کا اجازت نامہ رکھتے ہوں۔
نیدرلینڈز میں کرونا وبا کے آغاز سے ہی سخت بندشیں نافذ ہیں اور اکتوبر سے تمام ریستواں بند ہیں جبکہ دسمبر سے سکول بھی بند ہیں۔
نیدرلینڈز میں اب تک کرونا وائرس سے 13 ہزار 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ نئے کیسز کی تعداد کم ہونے کے باوجود وائرس کی نئی اقسام کے پھیلنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے حکومت نے کرفیو کا اعلان کر رکھا ہے۔