دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور ان کے دیگر دو ساتھیوں کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے، دوسری جانب کےٹو بیس کیمپ پر موجود تمام غیر ملکی کوہ پیماؤں نے موسم کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کے ٹو سرمائی مہم جوئی (2020/2021) کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
علی سد پارہ سمیت دو غیر ملکی کوہ پیما جان سنوری اور جے پی موہر پانچ فروری کی رات سے کے ٹو چوٹی سر کرنے کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے، تاہم چوٹی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ان کے ٹریکر نے کام کرنا بند کردیا، جس کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔
لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں گذشتہ چار روز کے دوران پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹروں سمیت نیپالی کوہ پیماؤں نے بھی حصہ لیا، تاہم اب تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
وزیر اطلاعات گلگت بلتستان کی جانب سے بدھ (10 فروری) کو جاری کیے بیان میں بتایا گیا کہ کے ٹو کی چوٹی پر لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں آج موسم کی خرابی کے سبب مشکلات کا سامنا ہے اور کے ٹو کے قرب جوار میں برفباری اور گہرے بادلوں کے سبب کوئی پرواز ممکن نہیں ہو سکی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ فضائی سرچ آپریشن کے لیے پاکستانی فضائیہ سے جدید آلات کی فراہمی کی درخواست کی جاچکی ہے جبکہ زمینی ٹیمیں بیس کیمپ میں موسم موافق ہونے کے انتظار میں ہیں۔
اتوار (سات فروری) کو نیپالی کوہ پیما چانگ داوا شرپا نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کو بتایا تھا کہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے جانے والے ہیلی کاپٹر میں وہ خود بھی موجود تھے، جس نے ساڑھے سات ہزار میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن علی سد پارہ کی ٹیم کا کچھ سراغ نہیں مل سکا۔
اس سے قبل گلگت ٹورزم پولیس کے اہلکار محمد اقبال شگری نے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا تھا کہ ’اتوار کی صبح علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش میں جانے والے ہیلی کاپٹرز میں ایک کیمرہ مین بھی ساتھ گئے تھے اور انہوں نے کچھ تصاویر لیں، تاہم ان کے فارنزک کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ تصاویر کیمپ تھری اور فور کے درمیان دکھائی دینے والے کچھ پرانے خیموں اور کپڑوں کی ہیں لیکن یہ ان کپڑوں سے مماثلت نہیں رکھتے، جو علی سدپارہ اور دیگر کوہ پیماؤں نے پہن رکھے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکردو میں موجود مقامی ماہر کوہ پیمائی اور صحافی نثار عباس نے نامہ نگار مونا خان کو بتایا تھا کہ ’چونکہ سیٹلائٹ فون کے آخری سگنل پانچ فروری شام ساڑھے چھ بجے باٹل نیک کے پاس ملنا بند ہوئے اور ساجد سد پارہ کے مطابق وہ اپنے والد اور ان کی ٹیم کو باٹل نیک میں آٹھ ہزار کی بلندی پر چھوڑ کر آکسیجن ریگولیٹر کی وجہ سے واپس نیچے کی طرف آئے۔ اس لیے لاپتہ کوہ پیماؤں کے متوقع ٹریسز کیمپ نمبر چار سے اوپر باٹل نیک اور آئس مونٹین کے درمیان ہی ملنے کے امکانات ہیں۔‘
علی سد پارہ کے ساتھ جانے والے ان کے بیٹے ساجد سد پارہ طبیعت کی خرابی اور آکسیجن ماسک خراب ہونے کے بعد واپس آگئے تھے، جنہیں ریسکیو کے لیے استعمال ہونے والے پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹر میں سات فروری کو کے ٹو بیس کیمپ سے سکردو پہنچایا گیا تھا۔
ساجد سد پارہ نے بعدازاں میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے آخری بار اپنے والد کو 8200 میٹر کی بلندی پر باٹل نیک پر چڑھتے دیکھا تھا۔
ساجد کا مزید کہنا تھا کہ وہ پُر یقین ہیں کہ علی سد پارہ کی ٹیم نے کے ٹو کی چوٹی سر کر لی تھی اور واپسی پر موسم کی خرابی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔
صحافی نثار عباس کا بھی کہنا تھا کہ ’یہ قوی امکان ہے کہ علی سد پارہ کی ٹیم کے ساتھ حادثہ سمٹ سے واپسی پر ہوا ہو، کیونکہ سد پارہ گاؤں کے مقامی کوہ پیماؤں کا کہنا ہے کہ باٹل نیک کراس کرنے کے بعد دشوار مرحلہ ختم ہو جاتا ہے اور علی سد پارہ جیسے سخت جان کوہ پیما کے لیے چند سو میٹر بالکل مشکل نہیں ہوئے ہوں گے۔‘
’اوپر چڑھتے وقت حادثہ اس صورت میں ہو سکتا ہے، اگر ہوا تیز اور مخالف رفتار کی ہو، لیکن تجربہ کار کوہ پیما جس نے آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے پر اپنے بیٹے کو رسک میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا اور سمٹ سےچھ سو میٹر کے فاصلے سے انہیں واپس بھجوا دیا تو یقیناً وہ اپنی ٹیم کے لیے بھی رسک نہ لیتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’واپسی پر اترائی کے وقت اندھیرا بھی تھا اور عین ممکن ہے کہ اس وقت کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔‘
یہاں ایک تکنیکی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہیلی کاپٹر اس موسم میں اتنی بلند اڑان بھر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک ایوی ایشن کے ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی پرواز کے لیے موسم اور ہوا کی شدت بھی معنی رکھتی ہے، پہاڑی علاقے میں زیادہ سے زیادہ سات یا ساڑھے سات ہزار میٹر کی بلندی تک جایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس سے اوپر ہیلی کاپٹر کی پرواز خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ انجن پاور بڑھانی پڑتی ہے۔ جس سے فیول کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو کہ رسکی ہو سکتا ہے۔‘
ایوی ایشن ماہر نے مزید بتایا کہ ’کے ٹو کی بلندی آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر بلند ہے اور دشوار گزار پہاڑی سلسلہ پرواز کو مزید مشکل بناتا ہے۔‘
کے ٹو کو اکثر ’قاتل پہاڑ‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ 86 کوہ پیما اس کو سر کرنے کی کوشش میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس سے چند ہفتے قبل یعنی 16 جنوری کو 10 نیپالی کوہ پیماؤں کے ایک گروپ نے موسم سرما میں دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کو پہلی بار سر کرکے تاریخ رقم کی تھی۔