پاکستان اور چین کی سرحد پر گلگت بلتستان کی حدود میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ حالیہ دنوں میں عالمی خبروں میں ہے اور اس کی وجہ جنوری کے مہینے میں نیپال سے تعلق رکھنے والے دس کوہ پیماؤں کی جانب سے تاریخ میں پہلی مرتبہ اس چوٹی کو موسم سرما میں سر کرنا ہے۔
کے ٹو کی بلندی 28251 فٹ ہے اور کوہ پیماؤں کے مطابق سردی میں اسے سر کرنا مشکل ترین کام ہے۔ نیپال کے دس کوہ پیماؤں کی جانب سے کے ٹو کو سر کرنے کے بعد اب دیگر کوہ پیما بھی اس کوشش میں ہیں کہ وہ سردی میں اسے سر کرسکیں۔
ان کوہ پیماؤں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد علی سدپارہ بھی شامل ہیں، جو اس مہم جوئی کے دوران اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ لاپتہ ہوچکے ہیں اور ان کی تلاش کے لیے ریسکیو کارروائی جاری ہے۔
دنیا میں 14 چوٹیاں ایسی ہیں، جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ یعنی 28 ہزار فٹ بلند ہے اور انہیں سر کرنا ہر کوہ پیما کی خواہش ہوتی ہے۔ کے ٹو کے علاوہ باقی چوٹیوں کو سردیوں میں سر کیا جاچکا ہے اور صرف کے ٹو ہی وہ واحد چوٹی تھی، جسے سرد موسم میں سر نہیں کیا گیا تھا، تاہم رواں برس اس مہم جوئی میں بھی کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کوہ پیماؤں کی جانب سے اتنا مشکل ترین اور رسک سے بھرا ایڈوینچر کیوں کیا جاتا ہے؟ اور کیا سردیوں میں کوہ پیمائی آسان ہے؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان میں مہم جوؤں کو مدد فراہم کرنے والے کلبوں کے عہدیداروں سے گفتگو کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الپائن کلب ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کا قیام 1974 میں عمل میں آیا اور یہ کوہ پیمائی کی ترویج میں مدد فراہم کرتا ہے۔ الپائن کلب کے سربراہ کرار حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سردیوں میں چوٹیوں کو سر کرنا ہر کوہ پیما کی خواہش ہوتی ہے اور جس طرح دیگر کھیلوں کے مقابلوں میں ہر کھلاڑی کوشش کرتا ہے کہ کچھ نیا کرکے دکھائے، اسی طرح کوہ پیما بھی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہر کوہ پیما کے لیے کسی بھی چوٹی کو سر کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے، جس طرح اس سال دس نیپالی کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سردی میں سر کرکے تاریخ رقم کی، اسی طرح اب ہر کوہ پیما چاہتا ہے کہ سردیوں میں اسے سر کرے اور ریکارڈ بنائے۔‘
کرار حیدری کے مطابق کوہ پیمائی میں ریکارڈ بھی بنائے جاتے ہیں، جس طرح نیپال کے دس کوہ پیماؤں میں سے ایک نے بغیر آکسیجن کے کے ٹو کو سر کیا تو اب ہر کوہ پیما چاہے گا کہ وہ بھی بغیر آکسیجن کے اسے سر کر سکے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’کوہ پیمائی بھی ایک گیم ہے اور اس میں ہر کوہ پیما ریکارڈ بنانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کوئی کم وقت میں کسی چوٹی کو سر کرتا ہے تو دوسرا بھی چاہتا ہے کہ اس سے بھی کم وقت میں چوٹی تک پہنچ جائے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔‘
گرمیوں کے مقابلے میں پہاڑی تودوں کا خطرہ کم
کہا جاتا ہے کہ سردیوں میں چوٹیوں کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے لیے پہاڑی تودوں کا خطرہ کم ہوتا ہے، جب اس حوالے سے کرار حیدری سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سردی میں برفانی تودہ گرنے کا کم خطرہ ایک فائدہ ضرور ہے لیکن سردیوں میں اس کے علاوہ بھی دیگر بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سردی میں شدید موسم میں جہاں درجہ حرات منفی 70 تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ساتھ میں ہوا کی رفتار بھی بہت زیادہ تیز ہوتی ہے تو یہ صورتحال تودوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، لیکن پھر بھی جسمانی لحاظ سے فٹ کوہ پیما اس چیلنج کو قبول کرکے چوٹی سر کرنے نکل جاتے ہیں۔
بلیو سکائی ٹورز آپریٹر بھی کوہ پیماؤں کو مدد فراہم کرنے والی ایک کمپنی ہے۔ اس کمپنی کے سربراہ غلام محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال سردیوں میں بہت کوہ پیما کے ٹو سر کرنے آئے ہیں۔ نیپال کے دس کوہ پیما، جنہوں نے سردی میں کے ٹو سر کی ہے، میں سے سات کوہ پیماؤں کو اسی کمپنی نے مدد فراہم کی تھی۔
غلام محمد نے بتایا: ’پچھلے سال تقریباً 12 کوہ پیما سردی میں کے ٹو سر کرنے آئے جبکہ اس سال سردی میں 48 کے قریب کوہ پیما آئے اور ان کی کوشش ہے کہ وہ بھی سردی میں کے ٹو کو سر کرسکیں۔‘