پاکستان میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو رواں سال مختلف ممالک کے 48 کوہ پیماؤں نے سر کرنے کی ٹھانی، جن میں سے نیپال سے تعلق رکھنے والے دس کوہ پیماؤں نے 26 ہزار فٹ سے زائد کی بلندی پر واقع اس 'مشکل ترین' چوٹی کو موسم سرما میں سر کرکے تاریخ رقم کی۔
دیگر کوہ پیما اب بھی کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش میں ہیں، جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے علی سدپارہ اور ان کا بیٹا ساجد علی سدپارہ بھی شامل ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ خراب موسم کی وجہ سے بیس کیمپ میں واپس آگئے ہیں اور موسم کی صورت حال کو دیکھ کر دوبارہ مہم جوئی کا آغاز کریں گے۔
کے ٹو سمیت دنیا کی 14 دیگر چوٹیاں، جن کی اونچائی26 ہزار فٹ سے بلند ہے، کو سر کرنے کی خواہش ہر کوہ پیما کی ہے۔ ان میں زیادہ تر غیر ملکی کوہ پیما ہوتے ہیں، جن میں سے بعض تو صاحب حیثیت ہوتے ہیں اور ان کے پاس چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے درکار رقم ذاتی طور پر موجود ہوتی ہے، جبکہ بعض کو مختلف کمپنیوں کی طرف سے سپانسر بھی کیا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کے ٹو اور اس قسم کی دیگر چوٹیوں کو سر کرنے پر کتنا خرچہ آتا ہے اور کے ٹو تک پہنچنے کے لیے کوہ پیماؤں کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سکائی بلیو ٹریک اینڈ ٹورز ایک پاکستانی کمپنی ہے، جو کوہ پیماؤں کو ٹور سروسز فراہم کرتی ہے۔ کے ٹو کو سردی میں پہلی مرتبہ سر کرنے والی ٹیم کے دس میں سے سات ممبرز کو سکائی بلیو ٹریک اینڈ ٹورز کمپنی نے خدمات فراہم کی تھیں۔
اس کمپنی کے سربراہ غلام محمد نے سکردو سے بذریعہ فون انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوہ پیما کسی بھی چوٹی کو سر کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی ٹور کمپنیوں کی خدمات لیتے ہیں جو گھر سے نکلنے سے لے کے چوٹی کے بیس کیمپ تک پہنچے میں ان کوہ پیماؤں کی مدد کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر اخراجات کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر کے ٹو اور باقی چوٹیوں کو سر کرنے پر لگ بھگ 40 سے 60 لاکھ روپے تک خرچہ آتا ہے۔ اس خرچے میں لاجسٹک، ٹکٹس، خوراک، آکسیجن سیلنڈر، کلائمبنگ کی مخصوص جیکٹس اور دیگر آلات شامل ہوتے ہیں۔
غلام محمد نے بتایا: 'کمپنی کی طرف سے کوہ پیماؤں کو پورٹرز کی سروس بھی فراہم کی جاتی ہے، جو انہیں بیس کیمپ تک پہنچاتے ہیں۔ پورٹرز چوٹی پر سامان کے ساتھ چڑھنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور سامان لے جانے میں کوہ پیماؤں کی مدد کرتے ہیں اور ساتھ ہی کوہ پیماؤں کے لیے آگے کا راستہ بھی کلیئر کرتے ہیں۔'
غلام محمد نے مزید بتایا کہ کیمپ میں ان کے ساتھ کمپنی کی طرف سے سٹاف بھی ہوتا ہے، جو ان کے لیے کھانا پکاتا اور دیگر کام کرتا ہے، جن کی روزانہ اجرت پانچ ہزار روپے ہوتی ہے۔
غلام محمد نے بتایا کہ کے ٹو سر کرنے کے لیے دو مہینے کی سمٹ ہوتی ہے جس میں کوہ پیما کوشش کرتے ہیں کہ وہ چوٹی کو سر کرنے میں کامیابی حاصل کریں۔ یہ کوہ پیما اپنے لیے ایک حکمت عملی بناتے ہیں اور موسم کو دیکھ کر اس میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: 'ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوہ پیما چوٹی کے قریب والے کیمپ میں پہنچ جاتے ہیں لیکن آخری کیمپ اور چوٹی کے درمیان والا سفر مشکل ترین ہوتا ہے تو موسم کی خراب صورت حال کی وجہ سے کوہ پیما دوبارہ نیچے والے کیمپوں میں آنا شروع کر دیتے ہیں اور موسم میں بہتری کا انتظار کرتے ہیں۔'
ایپری کاٹ ٹورز بھی ایک پاکستانی کمپنی ہے، جو کوہ پیماؤں کو سروسز فراہم کرتی ہے۔ اس کمپنی کے مطابق 26 ہزار فٹ سے اوپر بلندی والی چوٹیوں کے ریٹ لسٹ کے مطابق کے ٹو سر کرنے کا خرچہ 52 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نانگا پربت سر کرنے کے لیے 43 دن درکار ہوتے ہیں اور اس پر مجموعی طور 34 لاکھ سے زائد کا خرچہ آتا ہے۔
گیشربرم چوٹی کو سر کرنے کے لیے 46 دن درکار ہوتے ہیں اور کمپنی ریٹس کے مطابق اس پر کل خرچہ 36 لاکھ روپے آتا ہے جبکہ براڈ پیک چوٹی کے لیے 52 دنوں کا خرچہ بھی 36 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس رقم میں فیلڈ آفس، کوہ پیماؤں کے ساتھ جانے والے سٹاف، پورٹر اور شرپاز کی خدمات کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔
الپائن کلب پاکستان میں کوہ پیمائی کو فروغ دینے والی ایک تنظیم ہے، جو 1974 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس تنظیم میں کوہ پیما بھی شامل ہیں۔الپائن کلب کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس خرچے میں کوہ پیماؤں کو ادا کرنے والی ضروری رائلٹی فیس بھی شامل ہوتی ہے، جو پاکستانی حکومت کو ادا کرنی ہوتی ہے جبکہ پاکستانی کوہ پیماؤں کو یہ فیس نہیں ادا کرنی پڑتی۔
کرار حیدری کے مطابق چھ ممبرز کی کوہ پیما ٹیم کو مجموعی طور پر نو لاکھ 60 ہزار روپے دینا پڑتے ہیں اور اگر ٹیم میں ایک ممبر کا اضافہ کریں تو ساتھ میں رائلٹی فیس میں ایک ہزار ڈالر یعنی ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: 'کمپنی کی جانب سے بیس کیمپ تک سروسز دی جاتی ہیں اور اس کے بعد سب کچھ کوہ پیما نے ہی کرنا ہوتا ہے، تاہم اگر کوہ پیما کی جانب سے پورٹر کی درخواست کی جائے تو اس کی الگ فیس دینی ہوتی ہے۔'
پاکستان میں سردی کے موسم میں کوہ پیمائی میں اضافہ کیوں ہوا؟
اس سال سردی میں کوہ پیما زیادہ پرجوش نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے الپائن کلب کے کرار حیدری نے بتایا کہ 'سردی میں ہر کوہ پیما کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی چیلنج کو لے کر کسی چوٹی کو سر کر سکے۔کے ٹو کو سردی میں سر کرنے کے بعد اس جذبے میں مزید اضافہ ہوا ہے اور کوہ پیما اس کوشش میں لگے ہیں کہ وہ بھی نیپالی کوہ پیماؤں کی طرح کے ٹو کو سر کرسکیں۔ دیگر وجوہات میں ایک وجہ پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورت حال بھی ہے۔'
کرار حیدری نے بتایا: 'ماضی کے مقابلے میں اب سکیورٹی کے حالات بہت بہتر ہیں اور غیر ملکی کوہ پیما بغیر کسی خوف کے اب پاکستان آرہے ہیں تاکہ یہاں پر موجود چوٹیوں کو سر کرنے کے مشن میں حصہ لے سکیں۔'
سکائی بلیو ٹورز کے غلام محمد کے مطابق اس سال 48 کے قریب کوہ پیما صرف کے ٹو کو سردی میں سر کرنے کے لیے نکلے ہیں جبکہ پچھلے سال تقریباً دس کے قریب کوہ پیما آئے تھے اور جن میں سے بعض اب بھی اس مشن میں لگے ہیں کہ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرسکیں۔
ہنگامی صورتحال میں کوہ پیماؤں کو کیسے ریسکیو کیا جاتا ہے؟
بعض دفعہ بلند چوٹی کو سر کرنے میں کوہ پیماؤں کو مختلف مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، جن کو پھر طبی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیپال کے دس کوہ پیما جو کے ٹو کی چوٹی سر کرچکے ہیں، کے ایک ساتھی اس مہم کے دوران گرنے کے باعث شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ان کو کیمپ کے اندر طبی امداد بھی دی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
کرار حیدر سے جب کوہ پیماؤں کو ریسکیو کرنے والے ہیلی کاپٹر کے کرائے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ریسکیو کی سروس زیادہ تر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستانی فوج کی جانب سے مفت فراہم کی جاتی ہے، تاہم کوہ پیماؤ کی جانب سے اس سروس کو ہائر بھی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوہ پیماؤں کو عسکری ایو ی ایشن نامی ایک پاکستانی ادارے کے پاس 15 ہزار ڈالر یعنی 24 لاکھ روپے کی قابل واپسی رقم جمع کروانی پڑتی ہے اور کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی صورت میں پاکستانی آرمی کی جانب سے عسکری ایوی ایشن کو درخواست دینے کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو سروس فراہم کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: 'اگر مہم جوئی کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے تو جمع کروائی گئی رقم میں سے 64 ہزار روپے بطور سروس فیس کاٹ کر بقیہ 14 ہزار ڈالر سے زائد کی رقم کوہ پیما کو واپس دی جاتی ہے۔'
کوہ پیما کیمپ میں آگ کیسے جلاتے ہیں اور کھانے کا کیا بندوبست ہوتا ہے ؟
اس حوالے سے کرار حیدری نے بتایا کہ کوہ پیما اپنے ساتھ ایل پی جی گیس لے جاتے ہیں، جو وہاں پر اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے آگ جلانے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے کوہ پیما اسلام آباد میں لینڈ کرنے کے بعد بذریعہ جہاز سکردو چلے جاتے ہیں۔ سکردو میں ایک دن گزارنے کے بعد وہ بذریعہ جیپ آسکول گاؤں جاتے ہیں اور وہاں سے ٹریک پر جھولا کراس کرکے بیافو گلیشیئر چلے جاتے ہیں۔ بیافو پہنچے کے بعد وہاں سے وہ مختلف مراحل سے گزر کر کیمپ میں پہنچ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خوراک میں کوہ پیما کوشش کرتے ہیں کہ ہلکی خوراک کھائیں تاکہ ان کو اوپر جانے میں آسانی ہو۔
کرار حیدری نے بتایا: 'کوہ پیما اپنے ساتھ چاکلیٹ اور ڈرائی فروٹ بھی لے جاتے ہیں جو ہلکی خوراک ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا کہ وہ کم خوراک کھاتے ہیں کیونکہ کم خوراک کھانے سے بھی اوپر جانے میں پھر مشکل پیش آتی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ کے ٹو جانے والے راستے کو چار کیمپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ کوہ پیما ایک کیمپ میں پہنچ کر وہاں خیمے لگا کر سامان رکھ دیتے ہیں اور اوپر والے کیمپ میں جانے کی کوشش شروع کرتے ہیں لیکن اوپر پہنچ کر یہ دوبارہ اسی کیمپ میں آجاتے ہیں جہاں پر ان کے خیمے اور دیگر سامان موجود ہوتے ہیں اور پھر موسم کو دیکھ کر پھر اوپر جانا شروع کر دیتے ہیں۔