سوشل میڈیا خبروں اور معلومات کے حصول کا ایک فوری ذریعہ ہے، ایسے میں کوئٹہ کے نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے دم توڑتے کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
کوئٹہ کا نواحی علاقہ سریاب، جو کسی زمانے میں جرائم کے واقعات کی وجہ سے مشہور تھا، یہ کوشش اسی علاقے میں شروع کی گئی ہیں۔
اس کام کو شروع کرنے والے امجد علی واصف کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر وہ اپنے علاقےکے بچوں کو ایسی سرگرمیوں سے روکنا چاہتے ہیں، جن سے ان کی زندگی خراب ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’ریڈرز زون سریاب‘ کے نام سے آن لائن لائبریری کا منصوبہ بنایا۔
امجد نے بتایا: ’یہ خیال ہمیں ایسے آیا کہ کوئٹہ میں مقیم ہزارہ برادری نے یہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کےساتھ وہاں جاکر ان کا کام دیکھا اور ان سے بات بھی کی۔‘
امجد کے بقول: ’یہ آئیڈیا ہمیں بہت اچھا لگا اور ہم نے اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا اور ریڈرز زون سریاب کے نام سے فیس بک پر پیج بنایا جہاں ہم کتابوں کی تصویر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ پیج پر ہمارے کسی ساتھی کا وٹس ایپ نمبر بھی ہوتا ہے۔ جس کسی کو بھی کتاب کی ضرورت ہوتی ہے، وہ رابطہ کرتا ہے اور ہم وہ کتاب ان کے دیے گئے پتے پر پہنچا دیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن ردعمل اچھا آرہا ہے۔ امجد اور ان کے دوست یہ کام مفت اور اپنے خرچے پر کر رہے ہیں۔ وہ کتاب پڑھنے کی کوئی فیس نہیں لیتے ہیں۔
امجد نے بتایا کہ وہ خود چونکہ طالب علم ہیں، اس لیے کبھی پیدل، کبھی سائیکل یا موٹر سائیکل پر کتابیں لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
کتاب کتنے دن تک دی جاتی ہے؟
امجد نے بتایا: ’جو بھی ہم سے فیس بک پر رابطہ کرتا ہے، ہم اس کا نمبر اور پتہ نوٹ کرتے ہیں۔ پھر ہمارا کوئی دوست انہیں مطلوبہ کتب فراہم کردیتا ہے، جس کے لیے ہم ایک مہینے کا وقت دیتے ہیں اور مقررہ وقت کے بعد خود جاکر ان سے کتاب واپس لے لیتے ہیں، تاکہ یہ کتاب دوسروں کے کام آسکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پڑھنے والے سے کتاب کے بارے میں رائے بھی لیتے ہی اور اسے پھر اپنے پیج پر شائع کرتے ہیں۔
امجد کے مطابق: ’رائے لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے کتاب کو پڑھا ہے تو انہوں نے اس میں سے کیا پایا؟ یہ نہ صرف پڑھنے والے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اہم ہوتا ہے، جنہیں کتاب کے بارے میں بہتر تبصرہ پڑھنے سے قبل ہی مل جاتا ہے۔‘
امجد نے بتایا کہ ان کے پاس اب تک 200 قاری بن چکے ہیں جبکہ 300 سے زائد کتب موجود ہیں۔ یہ وہی کتابیں ہیں، جو انہوں نے خود پڑھنے کے لیےخریدی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس طریقہ کار کا بنیادی مقصد کتابوں کو پڑھنے والے تک پہنچانا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ علم اور آگاہی حاصل کریں۔
لوگوں کا ردعمل کیسا ہے؟
اس سوال کے جواب میں امجد نے بتایا: ’لوگوں کا ردعمل بہت مثبت ہے۔ ایسے بچے بھی کتابوں کے لیے ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، جو ریڑھی لگاتے ہیں یا گیراج میں کام کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری کامیابی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمارےعلاقےکے علاوہ دیگر شہروں جیسے مچھ اور پسنی سے بھی لوگوں نے رابطہ کیا ہے کہ انہیں کتابیں چاہییں۔ فیس بک استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر کسی کے استعمال میں ہے، اس لیے ہم نے اسی طریقہ کار کو اپنایا ہے۔‘
امجد نے بتایا کہ ان کے پاس سیاست، فکشن، سماجیات، ناولز اردو اور انگلش سمیت متعدد موضوعات کی کتابیں موجود ہیں، جو پڑھنے والوں کی دلچپسی کا باعث بن رہی ہیں۔
شکور بلوچ طالب علم ہیں اور نصابی کتابوں کے علاوہ غیر نصابی کتب پڑھنے کا بھی شوق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے تو وہ پیسے جمع کرکے کبھی کبھی کتابیں خرید لیتے تھے، لیکن جب سے انہیں ریڈرز زون سریاب کا پتہ چلا تو اس سے ان کا بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔
شکور نے بتایا کہ اس طریقہ کار کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کتابیں مفت مل جاتی ہیں اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، کیوں کہ بعض کتابیں مہنگی ہوتی ہیں، جو ہر کوئی نہیں خرید سکتا۔
انہوں نے بتایا: ’ایک تو ہم کتاب خریدنے کے جھنجھٹ سے بچ جاتے ہیں، دوسرا ہمارا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے، جو ہم بازار جانے کی بجائے کتاب پڑھنے میں لگاسکتے ہیں۔‘
شکورکے مطابق: ’چونکہ آج سوشل میڈیا کا دور ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو خراب کر رہا ہے، لیکن اس کا ایک مثبت استعمال بھی ہو رہا ہے۔‘
’آپ بس گھر میں بیٹھیں اور کتاب منگوالیں۔ جو پڑھنا چاہیں آپ منگواسکتے ہیں۔ اس سے بہتر چیز میرے خیال میں اور کچھ نہیں ہے۔‘
ریڈرز زون کا قیام حال ہی میں ہوا ہے، لیکن یہ نوجوان پرامید ہیں کہ وہ جس مقصد کے لیے کوشش کر رہےہیں، وہ اس میں کامیاب ہوجائیں گے اور علاقے کے نوجوان کتب بینی کی طرف راغب ہوجائیں گے۔