اسرائیل نے منگل کو امکان ظاہر کیا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق حکمت عملی پر امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گا۔
اسرائیل نے ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے اور اسے’حقیقی فوجی خطرہ‘ قرار دینے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ میں اسرائیل کے سفیر کا یہ بیان اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اگلے ماہ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے الیکشن لڑنا ہے جب کہ بائیڈن سے براہ راست رابطے سے پہلے ہی انہوں نے ایران کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کو دہرا دیا ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام کے معاملے پر ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے میں واپسی چاہتی ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہو گا کہ ایران اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا دوبارہ وعدہ کرے۔
واشنگٹن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان اقدامات پر مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں سے بات کرنا چاہتا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الگ ہو کر ایران پر عائد پابندیوں کو بحال کر دیا تھا۔
امریکہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد اردن نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو میں کہا: ’نئی انتظامیہ کا اس معاہدے کا حصہ بننے کی صورت میں ہم کسی ایسے عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔‘
نتن یاہو کے ساتھی نجی سطح پر سوال اٹھا چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ کسی نئے ایٹمی معاہدے کے معاملے میں اپنی رضامندی کا غیرحقیقی اظہار کر کے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ کام کرنے کی صورت میں اسرائیل کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل اب تک ایسے کسی بھی معاہدے کا مخالف ہے۔ اسرائیل 2015 میں امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم امریکی کانگریس میں اس کے طاقت ور حامی موجود ہیں۔اگر نتن یاہو یہ سمجھیں کہ سفارت کاری بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے تو اس صورت میں ان کی ایران کے خلاف یک طرفہ فوجی کارروائی کی دھمکیاں بھی بڑی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔
اسرائیلی سفیر کے بقول: ’ہمارا خیال ہے کہ اگر امریکہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے جس میں سے وہ نکل گیا تھا تواس صورت میں یہ معاہدہ اپنی افادیت مکمل طور پر کھو دے گا۔‘
’صرف پابندیاں یعنیٰ موجودہ پابندیاں بھی جاری رہیں اور نئی پابندیاں بھی لگائی جائیں۔ اس کے ساتھ ایران کو حقیقی فوجی خطرہ قرار دیا جائے، جس عمل سے ایران ڈرتا ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کی مدد سے ایران کو مغربی ملکوں کے ساتھ حقیقی مذاکرات کی طرف لایا جا سکتا ہے، جن کی بدولت بالآخر وہ معاہدہ ہو جائے گا جس کی مدد سے ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے گا۔‘
بائیڈن انتظامیہ کہہ چکی ہے وہ ایران پر پابندیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انہیں سخت بنانا چاہتی ہے۔ ایران ایٹمی بم بنانے کی کوشش کی تردید کرتا آیا ہے۔