قائد اعظم کے 14 نکات میں بھی سینیٹ کا ذکر موجود تھا: رضا ربانی

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہر آئینی مسئلے کا حل آئین میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی  (فائل تصویر: اے ایف پی)

سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی تشکیل کا بنیادی مقصد فیڈریشن ہے اور سینیٹ کا ذکر قائد اعظم محمد علی جناح کے 14 نکات میں بھی ایک اہم نکتے کی حیثیت سے موجود تھا۔

رضا ربانی جمعے کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران دلائل دے رہے تھے۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ کو بتایا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ذاتی حیثیت میں بھی پیش ہو رہے ہیں۔

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹ کے قیام کا مقصد گھٹن کے ماحول کو ختم کرکے متناسب نمائندگی دینا ہے، جس کے ذریعے ایسی چھوٹی سیاسی جماعتیں جن کی کسی صوبائی اسمبلی میں محض چار نشستیں ہوں، سینیٹ میں نمائندگی حاصل کر سکتی ہیں۔‘

اس سلسلے میں انہوں نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دی جہاں کسی جماعت کے تین یا چار اراکین کے باوجود سینیٹ میں نمائندگی مل جاتی ہے۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کو وفاق میں اپنی بات کرنے کا موقع دینے کے لیے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کا تصور پیش کیا گیا۔

انہوں نے عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ سینیٹ کی تشکیل اور مقصدیت کو سامنے رکھا جائے کیونکہ پاکستانی عوام کی اکثریت قومی اسمبلی میں ہوتی ہے جبکہ سینیٹ میں وفاق پاکستان کی نمائندگی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر آئینی مسئلے کا حل آئین میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی بل قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ مسترد کر سکتا ہے، جہاں فیصلہ 90 دن میں آنا ضروری ہوتا ہے۔ 

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ سینیٹ میں نمائندگی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے تناسب سے ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کی ہر صوبے میں بھی حکومت ہو، کیونکہ وفاق میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی کسی جماعت کی صوبے میں حکومت ہو سکتی ہے۔

رضا ربانی کے دلائل کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ایک مقام پر کہا: ’ہر سیاسی جماعت کی عددی تعداد کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے اور ووٹ سیکریٹ رکھنے کے پیچھے کیا منطق ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’سینیٹ انتخابات کی ووٹنگ شاید صحیح تناسب نہ لانے کے لیے خفیہ رکھی گئی۔‘

ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی جماعت کے صوبائی اسمبلی میں دو رکن ہوں تو وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد قائم کر سکتی ہے۔

انہوں نے رضا ربانی کو متناسب نمائندگی سے متعلق بتانے کو کہا۔

جس پر رضا ربانی نے بتایا کہ ’سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی قانون سازوں کے ذہن میں تھی اور اس نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام کام کر رہے ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک سے متعلق آئین کا الگ آرٹیکل ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین میں جہاں پارٹی نمائندگی کا ذکر ہے، وہیں سنگل قابلِ انتقال ووٹ (سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ یا ایس ٹی وی) کا بھی کہا گیا ہے جو مین سٹریم نمائندگی کا حق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ حکمران جماعت کے خلاف جائے بلکہ اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہو سکتی ہے، نظام جو بھی اپنایا جائے سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔‘

جس پر رضا ربانی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ  میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے، آرٹیکل 51 کے تحت متناسب نمائندگی مخصوص نشستوں پر پارٹی لسٹ کے مطابق ہوتی ہے۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ ’عدالت متناسب نمائندگی کی جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے، جبکہ سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں حکمران جماعت تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کا اتحاد ہے اور پی ٹی آئی نے سینیٹ میں ق لیگ کو بھی سینیٹ کی نشست دی ہے۔

ایک موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کئی بار سیاسی جماعتیں دوسرے صوبے کی جماعتوں سے بھی ایڈجسمنٹ کرتی ہیں، بین الصوبائی اتحاد بھی ہو تو ووٹنگ خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟‘

جس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے اور اول الذکر عام طور پر خفیہ ہی ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ تب ہوگی جب کوئی شخص انفرادی طور پر ایوان بالا کا رکن بننا چاہے۔‘

سماعت کے دوران ایک موقع پر رضا ربانی نے جسٹس اعجاز الاحسن کو جسٹس اعجاز الحسن کے نام سے پکارا، جس پر جج صاحب نے ان کی تصحیح کی۔

ایک دوسرے موقع پر رضا ربانی نے کہا کہ عام طور پر اراکین اسمبلی کو اچھا وکیل نہیں سمجھا جاتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ سینیٹر رہ چکے ہیں اور سنجیدہ وکیل ہیں۔‘

سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر (22 فروری) تک کے لیے ملتوی کردی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان