پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالہادی پشے وال جو افغانستان کے صوبہ لغمان میں طالبان کی جانب سے گورنر تعینات تھے، 27 فروری کی شام پشاور کے نواح میں چارسدہ روڈ کے پاس واقع رام کشن گاؤں میں قتل کر دیے گئے۔
مقامی پولیس کے مطابق پشاور کے مضافات میں بخشو پل کے پاس واقع مسلم آباد میں، جو رام کشن کے نام سے بھی مشہور ہے، عبدالہادی پشے وال اس وقت نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ مردان میں فاتحہ خوانی سے گھر واپس لوٹ رہے تھے۔
مقتول کے بیٹے رفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد 27 فروری کی شام اس وقت حملے کا نشانہ بنے جب وہ اپنے ایک دوست کی والدہ کی فاتحہ سے احباب کے ہمراہ واپس لوٹ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا: ’والد صاحب کے دوست بخشو پل کے قریب اتر گئے اور وہ جونہی گھر کے لیے اکیلے روانہ ہوئے تو پہلے سے تاک میں بیٹھے حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔‘
پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہو چکی ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، البتہ واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
عبدالہادی کے بارے میں پولیس ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشے وال کا تعلق ’اسلامی امارات افغانستان‘ یعنی افغان طالبان سے تھا اور وہ اس تنظیم میں کمانڈر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
انہی خبروں کی تائید افغان میڈیا اور دہشت گردی کی خبروں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹس نے بھی کی ہے۔ اس سائٹس کے مطابق وہ افغانستان کے صوبہ لغمان میں طالبان کی تنظیم میں گورنر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
اگرچہ مقتول کو مارنے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے تاہم یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں داعش خراسان کے حملہ آوروں نے قتل کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلے مہینے پشاور کے قریب ترناب کے علاقے میں ایک طالب کمانڈر ملا عبدالصمد جنہیں ’تور ملا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، کو فجر کی نماز کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ بعض خبروں کے مطابق ان کے حریف ملا موسیٰ پر ان کے قتل کا الزام لگایا جارہا ہے، جو گرفتاری کے بعد پولیس کی تحویل سے بھاگنے میں کامیاب بھی ہوئے تھے۔
عبدالہادی کیس کے تفتیشی افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقتول تقریباً پچھلے 13 سال سے رام کشن میں اپنے خاندان سمیت مقیم تھے اور علاقے میں واقع ایک چھوٹے مدرسے میں قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔
تفتیشی افسر کے مطابق مقتول کے چھ بچے ہیں جب کہ ان کے ایک بھائی سمیت دوسرے عزیز واقارب افغانستان میں ہی آباد ہیں۔ تاہم علاقہ مکین کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں دینی علما کا اکثر آنا جانا رہتا تھا، اور یہ کہ وہ اکوڑہ خٹک میں ایک بڑے دینی مدرسے میں درس بھی دیا کرتے تھے۔
کسی افغان طالب کمانڈر کے کسی پاکستانی شہر میں مرنے یا قتل ہونے کا یہ کوئی پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ماضی میں بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے چھوٹے بھائی حافظ احمداللہ کو اگست 2019 میں بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
2016 میں طالبان کے رہنما ملا اختر منصور بھی پاکستان میں ایک ڈرون حملے کے ذریعے قتل کیے گئے تھے۔
اسلام آباد اور کابل دونوں ایک دوسرے پر اپنے مخالف گروہوں کو پناہ دینے اور ایک دوسرے کی سرزمین اپنے خلاف استعمال ہونے کے الزامات لگاتے آرہے ہیں۔
اسی تناظر میں افغانستان کی سرزمین پر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے کئی اہم رہنما گرفتار اور ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے جون 2018 میں اس وقت کے ٹی ٹی پی کے رہنما ملا فضل اللہ کو افغانستان کے صوبہ کونڑ میں ایک ڈرون حملے کے ذریعے قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
علاوہ ازیں، تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے رہنما شیخ خالد حقانی افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں قتل ہوئے تھے۔ پاکستانی طالبان کے ایک اور اہم رہنما قاری سیف اللہ بھی افغانستان میں ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے تھے۔
حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کے ایک اہم گروپ ’لشکر اسلام‘ کے بانی منگل باغ بھی افغانستان میں ہلاک کیے جانے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں، جن کے مطابق منگل باغ آفریدی افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں 28 جنوری 2021 کو سڑک کنارے نصب کیے گئے ایک بم کا شکار ہوئے تھے۔