بھارت نے کہا ہے کہ چینی حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ کام کرنے والے ہیکروں نے نئی دہلی کے توانائی فراہم کرنے والے مختلف اداروں پر سائبر حملے کیے تھے۔
ریاست مہاراشٹر کے وزیرِ داخلہ انیل دیش مکھ نے پیر کے روز کہا کہ اس بارے میں ایک رپورٹ بھارت کی توانائی کی وزارت کو بھجوا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اب یہ حملے روک دیے گئے ہیں۔
اس سے قبل ایک امریکی ادارے نے انکشاف کیا تھا کہ ممبئی میں گذشتہ برس 12 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کے پیچھے ممکنہ طور پر چین کے سائبر حملے کا ہاتھ تھا۔
سائبر حملوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ’ریکارڈڈ فیوچر‘ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ 2020 میں چینی حکومت کی پشت پناہی سے چلنے والے ہیکر گروپوں کی جانب سے بھارتی انفراسٹرکچر کے خلاف حملوں میں شدت آ گئی ہے۔
ریکارڈڈ فیوچر کے مطابق ان حملوں کا مقصد کوئی مالی مفاد حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کے دفاعی مقاصد ہیں اور ان میں اس دوران شدت پیدا ہو گئی تھی جب بھارت اور چین کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے کھڑی تھیں۔
گذشتہ موسمِ گرما میں چین اور بھارت کے فوجی دستوں کے درمیان لداخ میں جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں دو درجن کے قریب افراد مارے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے چار ماہ بعد ممبئی میں بجلی کا بدترین بریک ڈاؤن ہوا جس میں کئی گھنٹوں تک شہر کے بڑے حصے میں بجلی غائب رہی۔ صوبائی وزیر نتن راوت نے اس کا باعث تکنیکی خرابی کو قرار دیا تھا۔
لیکن اب ریکارڈڈ فیوچر نے بھارت میں توانائی فراہم کرنے والے دس ایسے اداروں کی نشان دہی کی ہے، جنہیں چینی ہیکروں نے نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ دو بندرگاہیں بھی اس کی زد پر ہیں۔
ریکاڈڈ فیوچر کے چیف آپریٹنگ آفیسر سٹوارٹ سولومن نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ چینی ہیکرز نے منظم طریقے سے توانائی فراہم کرنے والے ایک درجن کے قریب بے حد حساس اداروں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق ریکارڈڈ فیوچر نے چینی حملوں کے بارے میں اپنی رپورٹ بھارت کو ارسال کر دی ہے، تاہم اب تک بھارت کی جانب سے اس بارے میں جواب نہیں آیا۔
ریکارڈڈ فیوچر کی رپورٹ کے مطابق چین نے بھارت کے طول و عرض میں واقع حساس اداروں میں ’میل ویئر‘ (مضر کمپیوٹر کوڈ) بھیجا تھا، تاہم ان میں سے اکثر کو ایکٹیویٹ نہیں کیا گیا۔
نیو یارک ٹائمز نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر کوڈ ایکٹیویٹ نہ کر کے چین نے بھارت کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے سرحد پر جارحیت کی کوشش کی تو حساس اداروں پر سائبر حملے کر کے بھارت میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔
سائبر حملوں کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ چین کی جانب سے بھارت کو اشارہ دیا جا رہا ہے کہ ہم کسی ہنگامی صورت حال میں یہ سب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’یہ بھارت کو وارننگ دینے کے مترادف ہے کہ ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔‘
سائبر حملے، جدید دور کی جدید جنگ
جدید زمانے میں دنیا بھر کا تقریباً ہر نظام کمپیوٹر کے تحت چل رہا ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی ملک کے حساس انفرا سٹرکچر کو نشانہ بنا کر کسی ملک کو لمحوں کے اندر اسی طرح سے مفلوج کیا جا سکتا ہے، جس طرح سے بم گرا کر یا ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے حملہ کرکے۔
اس کے علاوہ سائبر جنگ میں بموں اور ٹینکوں کی لڑائیوں کی نسبت بہت کم خرچ آتا ہے اور فوجیوں کے جانی نقصان کا بھی اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ سائبر حملے کے ماخذ کا آسانی سے تعین نہیں کیا جا سکتا اور اصل حملہ آور کی تلاش میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر اصل حملہ آور کا پتہ بھی چل جائے تب بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کوئی ریاست اس کی ذمہ دار تھی یا یہ محض کسی انفرادی شخص کی کارروائی تھی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 (4) کسی حملے کی صورت میں ریاستوں کو اپنی علاقائی سالمیت اور سیاسی ڈھانچے کی حفاظت کا حق دیتا ہے لیکن یہ صرف مسلح حملے کی صورت میں ممکن ہے۔
لہٰذا سائبرحملے کے جواب میں دفاع کے طور پر طاقت کا استعمال اسی صورت جائز قرار دیا جائے گا اگر اسے ’مسلح حملہ‘ سمجھا جائے۔ فی الحال بین الاقوامی سطح پر اس سلسلے میں خاصی کنفیوژن ہے۔
حالیہ برسوں میں سائبر جنگوں کی دو بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جن میں کسی ملک کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا کر مفلوج کر دیا گیا۔
ایرانی سینٹری فیوج پر اسرائیل کا حملہ
2009 اور 2010 میں سٹکس نیٹ (Stuxnet) نامی ایک میل ویئر نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ سائبر ماہرین کے مطابق اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا اور اسے اس سلسلے میں امریکہ کا تکنیکی تعاون حاصل تھا۔
سٹکس نیٹ مائیکروسافٹ ونڈوز کے ذریعے پھیلا تھا اور اس نے ایران کے یورینیئم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کو ہدف بنایا تھا جب کہ باقی کمپیوٹروں کو اس نے متاثر نہیں کیا تھا۔ اس میل ویئر نے سینٹری فیوجز کو چلانے والے کمپیوٹروں کی پروگرامنگ میں گڑبڑ پیدا کر دی جن سے ان کی رفتار ضرورت سے زیادہ تیز ہو گئی اور وہ اتنی دیر تک چلے کہ ان کی حساس مشینری میں خرابی پیدا ہو گئی۔ اسی دوران کمپیوٹر پر ’سب اچھا‘ کی رپورٹ چلتی رہی، جس کی وجہ سے ایرانی انجینیئروں کو پتہ نہیں چل سکا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے اور جب انہیں پتہ چلا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے ایران میں نیوکلیئر میلٹ ڈاؤن کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
یوکرین کے خلاف روس کا حملہ
اسی طرح 2017 میں روس کے ’پیتیا‘ نامی میل ویئر نے یوکرین کے توانائی کے اداروں، ریلوے، سرکاری محکموں، بینکوں اور دوسرے اداروں کے ہزاروں کمپیوٹروں کو نشانہ بنا کر ان کا ڈیٹا ضائع کر دیا تھا۔ اس سے ملک کے بیشتر حصے تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔
یہ کمپیوٹر کوڈ انتہائی تیزی سے پھیلا تھا اور اس نے کئی ملکوں کو متاثر کیا تھا مگر اس کا بنیادی ہدف یوکرین ہی تھا۔
اس وقت یوکرین اور روس کے درمیان کئی برس سے غیر اعلانیہ جنگ جاری تھی، جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔