جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ہفتے کو اسلام آباد میں منعقدہ سمٹ کے دوران نہ صرف سیاسی جماعتوں کے کردار بلکہ حکومتی مسنگ پرسنز کمیشن کی کارکردگی پر بھی تنقید کی گئی اور کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اس عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے چیئرپرسن نصراللہ بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا بھی عندیہ دیا۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان (ڈی ایچ آر پی) کے زیر اہتمام 21 مارچ کو جبری گمشدگیوں سے متعلق مشاورتی نشست میں شامل شرکا کا موقف تھا کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتیں شہریوں کی جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مضبوط موقف اپنانے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ غیر انسانی اور غیر قانونی کام ملک کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں دو ہزار سے زیادہ شہریوں کی جبری گمشدگی کا غیر سرکاری طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک ہزار 398 اب تک لاپتہ بتائے جاتے ہیں، جبکہ تقریباً 500 بازیاب اور 74 ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم حکومت اور ریاستی ادارے ان اعداد و شمار کو رد کرتے ہوئے گمشدہ افراد کی تعداد کو کم ظاہر کرتے ہیں۔
نشست کے شرکا نے افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ عوامی مفاد کے مسائل پر دباؤ کا شکار ہوتی ہیں اور یہی صورت حال جبری گمشدگی کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
شرکا نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر جبری گمشدگی کے خلاف جنگ کا آغاز کریں اور ریاستی اداروں کو قانون اور آئین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر، جو اس نشست میں موجود واحد سیاسی رہنما تھے، نے سیاسی جماعتوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’جب کوئی جماعت حکومت میں آتی ہے تو اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور پھر اس دباؤ کو قبول کرنا حکومتی پارٹی کی مجبوری بن جاتا ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارلیمان میں موجود سیاسی رہنماؤں پر کوئی دباؤ ڈالنے کی ہمت نہیں کر سکتا، تاہم حکومت میں آنے کے بعد صورت حال یکسر بدل جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا واحد حل سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، کیونکہ صرف اتحاد اور اکٹھ کے ذریعے ہی طاقتور اداروں کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے اور اس کے دوام کی خاطر اہم عوامی مسائل پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور جبری گمشدگی انہی مسائل میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’سیاسی جماعتوں کو جبری گمشدگی پر ایک واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا اور ہر پارٹی کو اپنے حلیفوں اور حریفوں کے ساتھ اس مسئلے پر تعاون کرنا ہو گا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں کو لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ان کے دکھ کو سمجھتے ہوئے ان کے پیاروں کی بازیابی کی کوششوں میں مخلصانہ حصہ لینا چاہیے۔‘
ڈی ایچ آر پی کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ انہوں نے تمام حکومتی اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو جبری گمشدگی سے متعلق اس نشست میں شرکت کی دعوت دی لیکن کسی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نشست میں ایک قرار داد کے ذریعے حکومتی مسنگ پرسنز کمیشن کی کارکردگی پر بھی تنقید کی گئی اور کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اس عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ کمیشن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے پاس جبری گمشدگی کی درخواست داخل کروانا ایک سعی لاحاصل ہے۔ ’جبری گمشدگی کی صورت میں حکومتی کمیشن کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے بلکہ وہاں موجود درخواستیں بھی واپس لے لینی چاہییں۔‘
اس موقع پر صحافی اور اینکرپرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ اکثر حکومتی پالیسیوں کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد دہشت گردی کی طرف راغب ہوتی رہی ہے۔
حامد میر نے جبری گمشدگی کی رپورٹنگ سے متعلق صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے چیئرپرسن نصراللہ بلوچ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے دعووں کے مطابق لاپتہ بلوچ بازیاب نہ ہوئے تو وہ تمام صوبوں میں احتجاج کریں گے جو بالآخر اسلام آباد کا رخ کرے گا۔
’اس مرتبہ ہم ڈی چوک سے اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک لاپتہ افراد سے متعلق ہمیں مطمئن نہیں کیا جاتا۔‘