دنیا بھر میں لوگ اس وقت حیرت میں ڈوب گئے جب امریکہ کی طاقتور جوہری فورس کے آفیشل اکاؤنٹ سے کچھ ’بے تکے‘ حروف ٹویٹ کیے گئے۔
کچھ لوگوں نے مذاق میں کہا کہ کیا ٹویٹ کیے گئے یہ حروف ’;l;;gmlxzssaw,‘ امریکی جوہری ہتھیاروں کے لانچگ کوڈ ہیں تو کچھ نے خدشہ ظاہر کیا کہ پینٹاگون ہیک ہوچکا تھا۔
اور کچھ نے تو یہ بھی قیاس کیا کہ یہ سیاسی سازشوں کی جانب اشارہ ہے۔
ان تمام قیاس آرائیوں کے دوران جوہری ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والی امریکی سٹریٹجک کمانڈ نے واضح کیا کہ حقیقت میں نیوکلیئر کمانڈ کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ایک بچے کے ہاتھ لگ گیا جس نے غلطی سے کچھ حروف ٹائپ کر کے انہیں ٹویٹ کر دیا۔
نبراسکا میں واقع ایئربیس امریکی فوج کے سٹریٹجک کمانڈ ’سٹراٹ کام‘ کا ہیڈ کواٹر ہے جہاں سے امریکہ کے خلاف کسی بھی حملے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار اور میزائل داغنے کے عمل کو کنٹرول کیا جاتا ہے لہذا اس کمانڈ کی جانب سے کیے گئے کسی بھی تبصرے کو امریکہ کے موجودہ دفاعی موقف میں کسی تبدیلی کی علامات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
یہ ٹویٹ سامنے آنے کے بعد سٹراٹ کام نے ڈیلی ڈاٹ کو بتایا کہ یہ ٹویٹ در حقیقت کوئی خفیہ پیغام نہیں تھا بلکہ یہ کمانڈ کے سوشل میڈیا ایڈیٹر کے گھر سے کام کرنے کا نتیجہ تھا۔
حکام نے کہا: ’کمانڈ کے ٹوئٹر منیجر نے کام کے دوران کمانڈ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو کھولا اور بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دیا۔ ان کے سب سے چھوٹے بچے نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور کیز سے کھیلنا شروع کر دیا جس نے پھر بدقسمتی اور نادانستہ طور پر اس اکاؤنٹ سے ٹویٹ پوسٹ کر دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’(کمانڈ میں) کوئی بھی ناگوار واقعہ پیش نہیں آیا یعنی ہمارے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو ہیک نہیں کیا گیا تھا۔‘
30 منٹ بعد سٹراٹ کام نے گذشتہ ٹویٹ کو نظرانداز کرنے کے لیے ایک اور ٹویٹ کی اور پھر یہ دونوں پوسٹس حذف کردیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب سٹراٹ کام نے سوشل میڈیا پر پریشانی کا سامنا کیا ہو۔
دسمبر 2018 میں نیو یارک میں ٹائمز سکوائر پر نئے سال کے موقع پر بال ڈراپ کا حوالہ دیتے ہوئے نیوکیئر کمانڈ نے ٹوئٹر پر مذاق میں کہا کہ اس بار بال کی بجائے کچھ ’بہت بڑا‘ ڈراپ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ٹویٹ میں ایک میوزک کے ساتھ B-2 سٹیلتھ بمبار کی جانب سے دو بم گرائے جانے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی۔
تاہم چند گھنٹوں بعد کمانڈ نے اس ٹویٹ کو حذف کردیا اور معذرت کی کہ یہ ایک ’برا مذاق‘ تھا۔