امریکہ نے جمعے کو اقوام عالم کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر فاتوبن سودا پرعائدپابندیاں اٹھالی ہیں۔ یہ پاپندیاں سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی انتظامیہ نے لگائی تھیں جنہیں عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بن سودا پر عائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا ہے ۔ بن سودا نے امریکی فوج کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات کا شروع کی تھی کہ آیا وہ افغانستان میں جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے یا نہیں۔ تحقیقات شروع کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر پابندیاں لگا دی تھیں۔امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار، رابطے اور تعاون کے شعبے کے سربراہ پکیسو موچوچوکا نام بھی خاص طور پر نامزد شہریوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلکن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمہ خارجہ نے عالمی فوجداری عدالت سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کے لیے ویزے کی پابندیوں کے حوالے سے 2019 سے جاری علیحدہ پالیسی بھی ختم کر دی ہے۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ'ان فیصلوں سے ہماری اس سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ ماضی کے یہ اقدمات نامناسب اور غیرمؤثر تھے۔'انہوں نے کہاکہ واشنگٹن نے نئے فیصلے کیے ہیں حالانکہ امریکی حکومت افغانستان اور فلسطین کی صورت حال کے حوالے سے عالمی فوجداری عدالت کے اقدامات سے سخت اختلاف رائے رکھتی ہے جب کہ حکومت کو عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل جیسے ملکوں کے عہدے داروں کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں لانے کوششوں پر اعتراض ہے حالانکہ یہ ملک عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
بیان میں اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ'ہمارا ماننا ہے کہ پابندیاں لگانے کی بجائے ان معاملات میں ہماری تشویش پر عالمی فوجداری عدالت کے دائرہ عمل میں آنے والے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے کے ذریعے بہتر انداز میں توجہ دی جائے گی۔'
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو اس بات سے حوصلہ ملا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی ہیں جس سے عدالت کواپنے وسائل کی ترجیحات کے تعین ،سزا دینے اور ظلم پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے بنیادی فرض پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب عالمی فوجداری عدالت کے ترجمان نے کہا ہے کہ رکن ممالک پر مشتمل ادارے کی گورننگ باڈی نے امریکی حکومت کے فیصلے خیرمقدم کیا ہے۔ ادارے کے رکن ممالک کی اسمبلی کی صدر سلویافرنانڈیز ڈی گرمنڈی نے کہا ہے کہ اپنی شہرت کے مطابق عدالت کی گورننگ باڈی عدالت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرتی رہے گی اور عمومی طور پر عالمی آرڈر کو قواعد کی بنیاد پر فروغ دیا جائے گی۔ ان کا بیان میں کہنا تھا کہ'مجھے یقین ہے کہ امریکی فیصلہ سزا سے بچ نکلنے کے خلاف ہماری مشترکہ لڑائی کے نئے دور کے آغاز کی طرف اشارہ ہے۔'
واضح رہے کہ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے امریکی فوج کے جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کے بعد امریکہ نے عدالت کے عملے کو ہدف بنا لیا تھا جن میں بن سودا بھی شامل تھیں۔ امریکہ نے ان کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے ان پر سفری پابندیاں لگا دی تھیں۔ امریکہ اس عالمی ادارے کا رکن نہیں ہے۔ عالمی فوجداری عدالت نے امریکی پابندیوں کو عالمی انصاف اور قانون کی عمل داری پر حملہ قرار دیا تھا۔