ہر سال کی طرح اس سال بھی برطانیہ میں ’رمضان مبارک‘ کے نام پر تمام بڑے سپر سٹورز میں رمضان پیکجز کی دھوم ہے۔ عید مبارک کی پرکشش جھنڈیوں اور رنگ برنگے ربنز تلے یہاں سے وہاں تک، قطار اندر قطار، دو رویہ شیلفوں میں ، سپیشل پیکجز کی بھر مار ہے کہ جن میں اوپر تلے ڈھنگ سے لگی وہ تمام اشیائے خوردونوش موجود ہیں جو رمضان میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں۔
اہم بات ان تمام چیزوں کی بکثرت موجودگی نہیں بلکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان تمام اشیا کی قیمتوں میں کم سے کم 15 سے لے کر 35 فیصد تک کٹوتی کر دی گئی ہے بلکہ جتنا بڑا پیکج اسی اعتبار سے مزید اور بھی کٹوتی۔
سعودی، قطری، خلیجی، مصری اور اُردنی، کھجوریں دیکھیں، جن کی گٹھلیاں نکال دی گئی تھیں اور بڑا سا پلاسٹک کا کانٹا اوپر رکھ کر نفاست کے ساتھ ’ائر ٹائٹ‘ پیکنگ کی گئی تھی کہ جس میں کھجور کی قدرتی نمی، لوچ اور تازگی تک بر قرار رہے۔
چنے کی دال اور سفید کابلی چنوں کا ایرانی، افغانی اور پاکستانی ائر ٹائٹ پیک میں بند ’بیسن‘ دیکھا اور انہی شیلفوں میں پاوڈر کی مانند پسی ہوئی مونگ اور ماش کی دال دیکھی۔ سائڈ میں رکھے وہ پرچے بھی دیکھے کہ جن میں دھی بڑے بنانے سے لے کر سموسوں اور تلی ہوئی دیگر چیزیں تیار کرنے کی ترکیبیں اردو ہندی، عربی اور انگریزی میں تحریر تھیں۔ سنڈی یا چیونٹی کے گھس آنے کا تو سوال ہی نہیں۔
پیکٹ میں بند خشک میوں (ڈرائی فروٹس) کی رونق بہت انوکھی لگی یعنی کاغذی بادام، چھلے ہوئے اخروٹ، بھنے ہوئے نمکین پستے، چلغوزے، لال اور پیلی خوبانیاں، بغیر گٹھلیوں والے ہرے اور گہرے کتھی آلوچے، انجیر، تراشیدہ کیلے، آم، ناشپاتی اور ہرے زرد اور لال سیبوں کے پیکٹس بھی موجود تھے۔
انہیں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ اس خشک حالت میں ان پھلوں کے استعمال کے طبی فوائد کی تفصیلات والا لٹریچر تھا جس میں مصر، ایران، (پاکستان و بھارت سمیت) جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور افریقہ وغیرہ میں (گھریلو علاج کے لیے) ان خشک میوں سے تیار شدہ وہ طبی نسخے اور انتہائی معلوماتی پمفلٹس تھے جن کو محض پڑھ کر طب یونانی، مصری اور طب ایرانی میں، پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی وہاں ہر متعلقہ شیلف میں رکھے ہوئے تھے جن میں سے بعض پمفلٹس اور کتابچے تو میں نجی مطالعہ کے بھی اٹھا لایا۔
اناج کے سیکشن میں پاکستانی باسمتی چاؤل (کرنل، شاہین، عسکری برینڈ)، کنی، ٹوٹی، لانگ گرین، انکل بین وغیرہ کے دو سے پانچ اور 10 کلوتک کے مضبوط تھیلوں کے انبار لگے دیکھے۔ یہی حال آٹے، سفید چینی، گڑ اور رمضانی مشروبات کا تھا جن کے نرخوں میں 30 فیصد تک کی حقیقتاً کٹوتی کی گئی تھی۔
خوردنی تیل میں ویجیٹیبل آئل، سن فلاور، سیسمی سیڈ، ناریل، زیتون اور سرسوں کے تیل سمیت خالص گھی کے (فوجی ناموں والے سمیت) مختلف برانڈز بھی ملے اور یہی حال احوال دودھ، دھی گھی اور مکھن وغیرہ کا تھا۔ ان پر ’سیل بائے ڈیٹ‘ واضح طور پر درج دیکھی یعنی یہ چیز کب سے کب تک تازگی برقرا رکھتے ہوئے فروخت کی جا سکتی ہے اور کب اسے لازماً مفت دے دی جائے یا تلف کر دی جائے۔
واضح طور پر یہ بھی لکھا دیکھا کہ فلاں چیز کہاں کی تیار کردہ ہےاور اس میں ’حلال و حرام‘ کا کس قدر خیال رکھا گیا اور اس کی باقاعدہ سند کس ادارہ نے فراہم کی ہے۔
گوشت کے سیکشن میں جس چیز میں میری خصوصی دلچسپی تھی وہ یہ کہ یہاں ’ذبح شدہ‘ گوشت کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، کس درجہ حرارت میں سامنے ڈسپلے ریک میں رکھا جاتا ہے اور رات میں اسی گوشت کو فرج میں کب ، کیسے اور کتنے عرصے تک رکھا جاتا ہے یا رکھا جاسکتا ہے۔
اس سیکشن میں بڑی اور درمیانہ سائز کی مچھلیاں برف کی بڑی بڑی ڈلیوں پر سجی ہوئی تھیں جنہیں حسب طلب پورشن کاٹ کر فروخت کیا جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنبے اور بکرے کا گوشت، پہلے سے کٹے ہوئے، چانپ ، ادلیٰ، کتیب، سینے یا ران کا (ہڈی اور بغیر ہڈی والا) گوشت، اسی طرح سے چربی چکنائی اور پردے (چھیچھڑے) والے قیمے اور بغیر چربی چکنائی اور بغیر پردے والے (روکھے) قیمے کی الگ الگ ٹریز لگی ہوئی تھیں۔ ان پر ان کے دام واضح طور پر لکھے نظر آئے۔ ہر ریک میں نیلگوں (جراثیم کش) فلورسنٹ لائٹس اور تھرمومیٹر بھی لگے ہوئے تھے گویا ایسا صاف ستھرا گوشت کہ ’ویجی ٹیرین‘ بھی منھ میں پانی بھرے کن انکھیوں سے دیکھے اور سوچے کہ کاش میں ’ویجی‘ نہ ہوتا۔
مسیحی ریاست برطانیہ میں پارلیمانی نشستوں کی تقدیر و نتائج بدل کر رکھ دینے والی موثر مسلم آبادی والے بڑے شہروں میں ’رمضان پیکجز‘ کے بارے میں لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ مثلاً رمضان ریڈیو کے متعدد خصوصی لائسنس اور دس میل کے علاقے میں ’لائیو تراویح‘ سمیت خصوصی نشریات وغیرہ اور پاکستان میں خاص کر رمضان میں قیمتوں پر کیسی آگ برس رہی ہے اور کیوں برس رہی ہے اور کون کون بےجا ذخیرہ اندوزی سے حرام خوری کر رہا ہے اور برطانیہ کے رمضان پیکیجز کے ساتھ موازنہ، میری کوشش ہوگی کہ دو ہفتوں بعد کروں لیکن فی الوقت یہاں ہیتھرو ائرپورٹ کے پاس ہانسلو کے علاقے میں قائم فری ’اوپن کچن‘ کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔
8 دسمبر 2018 میں اپنے آغاز سے لے کر اب تک بلاناغہ روزانہ 12 بجے سے دوپہر 2 بجے تک اور شام 6 بجے سے رات 8 بجے تک ’مفت گرم کھانا‘ اور مشروبات فراہم کرتا ہے جسے قطار باندھ کر حاصل کرنے والوں میں رنگ و نسل، مذہب و مسلک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سینکڑوں کی تعداد میں غریب و نادار، بےگھر اور کم آمدنی والے اس صدقہ جاریہ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
ہر ہفتے 500 مرتبہ روزانہ گرم کھانا (میٹ، ویجی ٹیبل، نان یا پاستہ) فراہم کرنے والے اس ’اوپن کچن‘ کے خالق چوہدری احسان شاہد کے اس فلاحی انقلاب کا ذکر خیر، لوکل کونسلرز اراکین پارلیمان اور مقامی مساجد کے توسط سے برطانوی پارلیمان میں بھی پہنچا ہے۔ اس ’ون مین آرمی‘ نے دیگر فلاحی اداروں اور تنظیموں کو بھی مہمیز لگائی ہے۔
لوگوں کی جانب سے بھی عطیات فراہم کرنے میں کمی نہیں ہے اور فیملیز کے لیے سپیشل ایوینٹس کا اہتمام کرتے رہنے کے سبب بھی بچّے اپنے کھلونے اٹھانے اور والدین خوردنی اشیا اور مشروبات، تھیلے بھر بھر کر لیجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے چہروں پر طمانیت کا اظہار اور ایک عجب سی مسکراہٹ ہوتی ہے، لگتا ہے محبت اور انسانی اخوت کا ایک زم زمہ ہے جو لگاتار بہہ رہا ہے اور جانے کتنے ہی غریب خاندان ہیں جو فیضیاب ہو رہے ہیں۔