ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک مبینہ لیکڈ ریکارڈنگ میں ان کا یہ شکوہ کہ پاسداران انقلاب کا ملک کی خارجہ پالیسی اور جوہری پروگرام کی معلومات پر ان سے زیادہ اثرورسوخ ہے نے ایرانی حکومت اور اس طاقتور فورس کے درمیان تعلقات کی نوعیت پر نئی روشنی ڈالی ہے۔
معتدل ایرانی صدر حسن روحانی کی حکومت اور پاسداران انقلاب کے درمیان تعلقات اس لیے بھی اہم ہیں کہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے سخت گیر گارڈز مغرب کے ساتھ ہونے والے تعلقات کی بحالی کے عمل کو اپنے اثرورسوخ کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں۔
پاسداران انقلاب واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے روایتی طور پر مخالف رہے ہیں اور ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سال 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کے مقصد سے کیے جانے والے مذاکرات کے باعث یہ خدشات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔
لندن سے فعال ایران انٹرنیشنل کے فارسی زبان کے چینل پر اتوار کو نشر کیے جانے والے انٹرویو کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی پر ان کا اثر ’صفر‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’میں آج تک کسی فوجی کمانڈر کو سفارتی عمل میں مدد فراہم کرنے کے لیے کچھ کرنے کا نہیں کہہ سکا۔‘
آڈیو کے مصدقہ ہونے پر بات کیے بغیر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا سوموار کو کہنا تھا کہ مذکورہ نیوز چینل نے وزیر خارجہ کے ساتھ کیے جانے سات گھنٹے طویل انٹرویو کے صرف کچھ حصے نشر کیے ہیں۔
ایرانی سیاست میں اس قسم کے لب و لہجے کا استعمال دیکھنے میں نہیں آتا جیسا ایرانی وزیر خارجہ نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر آنجہانی جنرل قاسم سلیمانی کے خارجہ پالیسی پر اثرونفوذ کے بارے میں استعمال کیا ہے۔
انہوں نے اشارہ کیا کہ قاسم سلیمانی نے روس کے ساتھ مل کر سال 2015 میں کیے جانے والے جوہری معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکڈ آڈیو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا: ’وہ (قاسم سلیمانی) ہر بار مذاکرات کے لیے جانے سے قبل مجھے کچھ نکات بیان کرنے یا رعایتیں دینے کا مشورہ دیتے تھے۔ فوج کے لیے سفارتی فتح سے زیادہ ضروری میدان میں فتح تھی اور میں فوج کی میدان میں فتوحات کے لیے مذاکرات کر رہا تھا۔‘
ایران کی خفیہ قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں موجود ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
انہیں گذشتہ سال عراق میں امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے جواب میں ایران نے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے تھے۔ ان حملوں سے چند گھنٹے بعد ایرانی افواج نے یوکرین کے ایک مسافر طیارے کو تہران سے پرواز بھرنے کے بعد مار گرایا تھا جس میں طیارے میں سوار تمام عملہ اور مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔ پاسداران انقلاب نے اس طیارے کو نشانہ بنانے کو ’غلطی‘ قرار دیا تھا۔
ریکارڈنگ میں جواد ظریف کا کہنا تھا: ’میں نے (سپریم نیشنل سکیورٹی اجلاس میں) کہا کہ دنیا کہہ رہی ہے کہ اس طیارے کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر طیارے کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا تو ہمیں بتایا جائے تاکہ ہم اس مسئلے کو حل کر سکیں،‘ مجھے کہا گیا کہ ’نہیں آپ ٹویٹ کر کے اس کی تردید کریں۔‘
گو کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ وہ 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن کچھ ناقدین نے ان ریمارکس کو معاشی اور شخصی آزادیوں کے مسائل کے شکار ایرانی شہریوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
معروف معتدل شخصیات نے جواد ظریف کا نام ممکنہ امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ انتخابات میں پاسداران انقلاب کے کئی مشہور کمانڈرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ فورس سال 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد قائم کی گئی جو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو جواب دہ ہے۔
سعودی نشریاتی ادارے ’العریبیہ‘ کے مطابق اپنی لیکڈ ریکارڈنگ میں ایرانی وزیر خارجہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شام میں ایرانی اہداف پر ہونے والے 200 حملوں کی اطلاع انہیں امریکی ایلچی جان کیری نے دی تھی۔ تاہم جان کیری نے اپنی ٹویٹ میں اس بیان کی تردید کی ہے، جبکہ متعدد ری پبلکن ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ جان کیری کو بائیڈن انتظامیہ میں اپنے موجودہ منصب سے فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔