اسلام آباد گولڑہ بستی کے رہائشی شخص کی مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کے استعمال کے الزام پر مقامی افراد کی جانب سے پولیس نے توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا جب کہ مشتعل ہجوم نے ملزم کو خود سزا دینے کی خاطر تھانے پر ہلہ بول دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ نے لکھا کہ ان کے محلے میں موجود اس شخص نے، جو خود بھی مسلمان ہے، مسجد کے باہر لگے مذہبی پینا فلیکس اتار کر پھاڑے اور نازیبا کلمات ادا کیے۔
چند روز گزرنے کے بعد گذشتہ روز وہی شخص اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ آیا اور دوبارہ وہی حرکت کی۔ اس بار اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار آلہ بھی تھا جس سے اُس نے مبینہ طور پہ مسجد کے مولوی کی رہائش گاہ کے دروازے پر وار کیے اور گالم گلوچ کی۔
اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد مقامی کچی بستی کے افراد جمع ہو گئے انہوں نے مبینہ طور پر ملزم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ پولیس ملزم کو گولڑہ تھانے لے آئی لیکن مشتعل ہجوم ملزم کے پیچھے پیچھے تھانے کے باہر پہنچ گیا۔
ایس ایس پی آپریشن مصطفیٰ تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مشتعل ہجوم بضد تھا کہ ملزم کو اس کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ خود اس کو سزا دے سکیں۔ اس ساری لڑائی میں مشتعل افغانی گروہ نے گولڑہ تھانے پر بھی حملہ کیا توڑ پھوڑ کی پتھراؤ کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’تھانے کے شیشے پتھراؤ سے ٹوٹ گئے، جبکہ مشتعل ہجوم میں سے چند ایک کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا جس سے ایک پولیس اہلکار کو گولی بھی لگی، تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کارِ سرکار میں مداخلت اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے افراد کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ گذشتہ شب دو گھنٹے گولڑہ تھانے کے باہر ہنگامہ جاری رہا۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام موقع پر ہی موجود رہے۔ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا استعمال کرنا پڑا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ پولیس کی کامیابی ہے کہ ایک شخص کو مشتعل مذہبی ہجوم کے عتاب سے بروقت کارروائی کر کے اس کی جان بچا لی گئی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے بعد مبینہ ملزم کو تھانے سے نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے اور 24 گھنٹے کے اندر اسے کچہری پیش کر کے ریمانڈ لے کرعدالتی کارروائی بھی مکمل کی جائے گی اور تفتیش کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چونکہ بستی کے لوگ مشتعل ہیں اور ملزم کے اہل خانہ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لیے ملزم کے اہل خانہ کو بھی گذشتہ شام محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ گھر کے باہر پولیس اہلکار تعینات ہیں تاکہ کوئی قانون ہاتھ میں نہ سکے اور مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ کر سکے۔ ‘
پولیس حکام کے مطابق یہ مظاہرین اور مبینہ ملزم پاکستانی شہری نہیں ہیں بلکہ افغان باشندے ہیں جو کچی بستی میں رہائش پذیر ہیں۔ ذرائع کی جانب سے یہ شک بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے جس کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے۔