امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو پر غزہ میں جاری کشیدگی میں ’کمی‘ لانے پر زور دینے کے بعد حماس کے ایک سینیئر عہدے دار نے عندیہ دیا ہے کہ جنگ بندی ممکنہ طور پر کچھ ہی دن دور ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کی رات اسرائیل پر راکٹ داغنے کی شدت میں کمی آئی جبکہ اسرائیل نے جمعرات کی صبح بھی غزہ پر فضائی حملے کیے مگر اسرائیلی میڈیا کے مطابق، گذشتہ دنوں کے مقابلے میں ان حملوں کی شدت کم تھی۔
مصری سکیورٹی فورس میں ایک ذرائع کے مطابق دونوں فریقین نے ثالثی کے بعد اصولی طور پر جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کردی ہے مگر اس کی تفصیلات پر ابھی خفیہ بات جیت جاری ہے۔
حماس کے سیاسی اہلکار موسیٰ ابو مرذوق نے لبنانی چینل المیادین ٹی وی کو بتایا: ’میرے خیال میں جنگ بندی کے لیے ہونے والی کوششیں کامیاب ہوں گی۔‘
’مجھے توقع ہے کہ ایک یا دو دن میں جنگ بندی پر معاہدہ ہو جائے گا اور یہ دونوں کی رضامندی سے ہوگا۔‘
دوسری جانب اسرائیلی سرکاری ریڈیو پر وزیر انٹیلی جنس ایلائی کوہن سے پوچھا گیا کہ کیا جنگ بندی جمعے سے ہوگی تو ان کا کہنا تھا: ’نہیں، ہمیں واقعی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔۔۔ مگر ہم تب آپریشن ختم کریں گے جب ہمیں لگے گا کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔‘
بدھ کو امریکی صدر سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں حمکران تنظیم حماس کو مستقبل میں طاقت کے استمعال کو روکنا چاہتا ہے۔
’الجزیہ‘ نے رپورٹ کیا کہ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے امن کے سفیر ٹور وینسلینڈ قطر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے مل رہے ہیں۔
اسرائیل نے بدھ کو آدھی رات کے بعد غزہ پر ایک درجن سے زائد فضائی حملے کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے نشانہ غزہ شہر میں اسلحے کا ایک سٹوریج یونٹ، حماس کے ایک اہلکار کا گھر اور گھروں میں ملٹری انفراسٹرکچر تھا۔
برطانوی ویب سائٹ دی انڈپینڈنٹ کے مطابق صدر جو بائیڈن نے بدھ کو، ایک ایسے وقت پر جب غزہ شہر پر اسرائیلی حملے دسویں دن میں داخل ہو چکے ہیں، ٹیلی فون پر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو کہا کہ وہ جنگ بندی کی طرف پیش قدمی کے طور پر حملوں میں آج نمایاں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔
گذشتہ ایک ہفتے میں یہ صدر بائیڈن کی وزیر اعظم نیتن یاہو کو چوتھی ٹیلی فون کال تھی۔
وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سیکریٹری کیرن جین پیری سے جب پوچھا گیا کہ صدر بائیڈن نے بدھ کو بظاہر وزیر اعظم نیتن یاہو کو ڈیڈ لائن کیوں دی؟ تو انہوں نے صحافیوں کو جواب دیا کہ ’کال کے متعلق بیان واضح ہے۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ صدر کی حکمت عملی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے حکام سے بات چیت ’سفارتی انداز میں خاموشی اور گہرائی‘ سے کریں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ’غزہ میں ہونے والے واقعات، اسرائیل کی جانب سے حماس اور دوسرے دہشت گرد عناصر کی صلاحیتوں میں کمی پر پیش رفت اور امریکہ اور علاقائی حکومتی کی سفارتی کوششوں‘ پر بھی گفتگو کی۔
صدر بائیڈن کی اسرائیلی وزیر اعظم سے حالیہ توقع ایک ایسے وقت پر سامنے آئی جب پورے امریکہ اور ڈیموکریٹ کے قانون ساز ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی اور یروشلم میں فلسطینی خاندانوں کی جبری بے دخلی ختم کرنے پر آمادہ کریں۔
حالیہ ٹیلی فون کال سے ایک روز قبل منگل کو صدر بائیڈن کو ڈیئربورن، مشیگن کے دورے پر ان ہزاروں لوگوں کا سامنا کرنا پڑا، جو عرب امریکی اکثریتی آبادی پر مشتمل شہر میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف تین مظاہرے کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈیموکریٹ کی نمائندہ راشدہ طلیب نے بھی مشیگن پہنچنے پر صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی حمایت میں مزید کام کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راشدہ نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا اور ایوان میں اپنے بیانات میں اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔
غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں اب تک درجنوں بچوں سمیت کم از کم 219 فلسطینی ہلاک جبکہ پورے شہر میں کئی مکانات، طبی سہولیات اور دوسری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ایسے میں شہر کے لاکھوں لوگوں کے لیے انسانی بحران مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
دوسری جانب حماس کے اسرائیل میں راکٹ گرنے سے کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
صدر بائیڈن اور محکمہ خارجہ کے حکام نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران غیر ملکی رہنماؤں کو درجنوں فون کالز کی ہیں۔ حالانکہ امریکہ نے پہلے پہل رواں ہفتے کے آغاز پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے جنگ بندی پر زور دینے کے مشترکہ بیان کو رکوا دیا تھا۔
مصر اور اردن سے بات چیت کے بعد اس وقت فرانس قرار داد جاری کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔