'دی انڈپینڈنٹ' نے ایک تحقیق دیکھی ہے جس کے مطابق غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں برطانیہ کے تیار کردہ فوجی آلات اور سازوسامان استعمال کیا گیا۔
فلسطینی علاقے پر فضائی 10 مئی کو شروع ہوئے، جس کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 افراد ہلاک ہو گئے۔
اسلحے کی برآمد کے لیے سخت سمجھے جانے والے قواعدوضوابط کے باوجود ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کے تیار کردہ آلات نے لڑائی کو ہوا دینے میں مدد کی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے گذشتہ ہفتے تصدیق کی تھی کہ غزہ پر بمباری کے لیے استعمال ہونے والے فوجی طیاروں میں جدید ترین ایف35 جنگی طیارے بھی شامل تھے۔
جیٹ طیارے بنانے والی امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا کہنا ہے کہ ’درجنوں طیاروں کے اہم پرزوں پر ان کے برطانیہ میں تیار کیے جانے کی چھاپ‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔
برطانوی دفاعی جریدے کا اندازہ ہے کہ ان پرزوں اور آلات میں 15 فیصد برطانیہ میں تیار کیے گئے۔
جمعے کو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے برطانیہ کے نئے طیارہ بردار بحری جہاز کے معائنے کے موقعے پر ذاتی فخر کے ساتھ کہا تھا کہ جنگی طیارے سے ’ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پورے برطانیہ میں کس طرح درست سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ملک کو نئی ٹیکنالوجی اور مہارت پر مبنی نئی ملازمتوں کے ذریعے ترقی دے رہے ہیں۔‘
جنگی سازوسامان تیار کرنے والے کہتے ہیں کہ ایف 35 طیاروں بشمول ’بی اے ای سسٹمز، جی ای ایوسی ایشن،مارٹن بیکر، سیلیکس، کوبہم، الٹرا الیکٹرونکس، یوٹی سی ایکچویشن سسٹمز اور رولز رائس کی تیاری میں‘ ایک سو سے زیادہ برطانوی سپلائرز‘ کا کردار ہے۔
اسرائیلی فورسز ایف 16 فائٹرجیٹ طیارے اور اپاچی ہیلی کاپٹروں کے استعمال کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔
برطانوی حکومت اس حوالے سے پہلے ہی تسلیم کرچکی ہے کہ ان میں ’تقریباً یقینی طور پر’ برطانیہ کے فراہم کردہ آلات لگے ہوئے ہیں۔
ماضی میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن کے دوران اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے 2009 میں بیان جاری کیا تھا جس کے مطابق مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں برطانیہ میں تیار کردہ آلات امریکہ برآمد کیے گئے جو بالآخراسرائیل کے استعمال میں آنے تھے۔
ایف 16 میں برطانیہ کے تیار کردہ جو آلات استعمال کیے جاتے ہیں ان میں ہدف کو نشانہ بنانے کے جدید آلات شامل ہیں جیسا کہ اوپر اور نیچے کے مناظر اور ترقی یافتہ ڈسپلے یونٹ۔
دریں اثنا اپاچی ہیلی کاپٹر گن شپس میں برطانیہ کا تیار کردہ ریڈار سسٹم، نیوی گیشن آلات، انجن اور آگ پر قابو پانے کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ نے یہ شواہد برطانوی حکومت کو پیش کیے ہیں جو اسلحہ اور حساس فوجی سازوسامان کی برآمد کو باضابطہ بناتی ہے لیکن صرف یہ بتایا گیا کہ ’برطانیہ ہتھیاروں کی اپنی برآمد کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘
دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں برطانوی اسلحے کی فروخت پر مکمل نظرثانی کے حصے کے طور پر اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کو فوجی برآمدات بند کی جائیں۔
شواہد اکھٹے کرنے والی اسلحے کی تجارت کے خلاف سرگرم تنظیم ’کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ‘ سے تعلق رکھنے والے اینڈریو سمتھ کے بقول: ’گذشتہ دو ہفتے کے دوران ہونے والی بمباری میں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور غزہ میں انسانی بحران شدید ہو گیا۔
’حکومت ہم سے کہتی ہے کہ اسے تشویش ہے لیکن وہ اس ضمن میں کم ازکم اقدامات میں بھی ناکام رہی اور ان بنیادی سوالات کا جواب دینے سے مسلسل انکار کر رہی ہے کہ آیا برطانیہ ساختہ وہ اسلحہ جو اس نے فروخت کیا، استعمال کیا جا رہا ہے یا نہیں۔
’پہلی بار ایسا نہیں ہوا۔ برطانوی ساختہ ہتھیار اور آلات کئی بار فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہو چکے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا ہے۔‘
سمتھ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں ہمیشہ بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ برآمد کرنے کے قواعدوضوابط مبینہ طور پر بہت سخت ہیں لیکن حقیقت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو سکتا۔
’مزید کتنی خلاف خلاف ورزیوں اور مظالم کے بعد بورس جانسن اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بالآخر اپنی پالیسی تبدیل کریں گے اور دنیا بھر میں تشدد اور جبر برآمد کرنا بند کریں گے؟
'ہم سب کو امید کرنی ہوگی کہ تمام فریق اس جنگ بندی کی پاسداری کریں گے لیکن یہ محض قبضے اور ناکہ بندی کے ناانصافی پر مبنی معمول کے حالات کی طرف واپسی نہیں ہو سکتی۔
’وقت آ گیا ہے کہ اس میں ملوث حکومتیں جیسا کہ برطانیہ بامعنی امن پر زور دیں اور اسلحہ کمپنیوں کے منافعے کو فلسطینیوں کے حقوق پر ترجیح دینا بند کریں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کے فوجی، سلامتی اور پولیسنگ پروگرام کے ڈائریکٹر اولیورفیلی سپریگ کے بقول: ’اسرائیلی فورسز اور فلسطین کے مسلح گروپ خوف ناک جنگ میں متعدد جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور برطانیہ پر لازم ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اسلحہ فروخت کر کے ان جرائم میں فریق نہیں۔
’علاقے میں برطانوی اسلحے کی فروخت کے مکمل جائزے سے پہلے وزرا کو فوری طور پر اسرائیل اور کسی تیسرے ملک کو فوجی برآمدات کرنی چاہییں جو اسرائیل کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں برطانیہ کے فراہم کردہ آلات کو شامل کرسکتا ہے۔
'ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ اسرائیل ،حماس اور فلسطین کے دوسرے مسلح گروپوں کو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگا دی جائے لیکن اقوام متحدہ میں موجود تعطل کا مطلب ہے کہ برطانیہ جیسے ملکوں کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے کہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
’خاص طورپر برطانوی وزرا لازمی بتائیں کہ آیا برطانوی ٹیکنالوجی کیا اب بھی اس اسرائیلی فوجی ڈرون پروگرام میں استعمال ہو رہی ہے جو 2006 میں سامنے آیا تھا لیکن زیادہ تر اب بھی خفیہ ہے۔‘
سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2015 میں کنزرویٹو حکومت کے قیام کے بعد سے برطانیہ اسرائیلی فورسز کو 40 کروڑ پاؤنڈز کے ہتھیار فروخت کرنے کی اجازت دے چکی ہے۔
ان ہتھیاروں میں طیارے، بم، بکتربند گاڑیاں اور گولہ بارود شامل ہے۔ لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رچرڈ برگن، جنہوں نے پارلیمنٹ میں وزرا سے برآمدات کے بارے میں سوالات کیے ، دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’برطانوی حکومت یہ دعویٰ کیسے کر سکتی ہے کہ وہ امن کی حامی ہے حالانکہ وہ اسرائیل کو اس انداز میں مسلح کر رہی ہے؟
’حالیہ دنوں میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ برطانوی حکومت اسرائیل کو تمام اسلحے کی فروخت پر فوری پابندی عائد کر دے۔
’ایسا کیے بغیر ہماری حکومت کا امن کی بات کرنا کھوکھلا دعویٰ ہو گا۔ دراصل حکومت اسرائیل کی فلسطین کے لوگوں کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کی جانب سے شیخ جراح کے ہمسایہ مقبوضہ علاقے سے خاندانوں کی بے دخلی کے خلاف فلسطینیوں کے مظاہروں کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں تشدد پھیل گیا تھا۔ جواب میں اسرائیلی فورسز نے مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر سن کر دینے والے دستی بموں اور آنسو گیس سے حملہ کر دیا۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس نے اسرائیل پر راکٹ داغے جس کا جواب اسرائیلی فورسز نے فضائی حملوں میں دیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے راکٹ حملوں سے ملک میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح اسرائیلی حملوں میں 232 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں 65 بچے شامل ہیں، اس کے علاوہ 1900 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جو فلسطینی مارے گئے ان میں 160 جنگجو تھے۔ جمعے کو جنگ بندی ہو گئی جس پر اب تک عمل درآمد جاری ہے۔
لڑائی میں برطانیہ ساختہ آلات اور اسلحے کے استعمال سے متعلق سوال کے جواب میں برطانوی حکومت کے ترجمان نے کہا: ’پورے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تشدد بے حد تشویش ناک ہے۔ سیکرٹری خارجہ کئی بار کشیدگی میں کمی کا کہہ چکے ہیں اور انہوں نے گذشتہ رات ہونے والے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
’برطانوی حکومت اسلحے کی برآمد سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے اور دنیا میں اسلحے کی فروخت کے معاملے میں بہت سخت قواعدوضوابط پرعمل پیرا ہے۔
’ہم اپنی تمام برآمدات کو خطرے کے جائزے کے سخت نظام کے تحت دیکھتے ہیں اور معیار کے طور پر تمام لائسنسوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے۔
’اسلحے کی برآمد کے لائسنس کے لیے یورپی یونین اور برطانیہ کے مشترکہ قواعدوضوابط پر پورا نہ اترنے کی صورت میں ہم لائسنس جاری نہیں کرتے۔‘
© The Independent