ایران کی عوام نے 18 جون کو 13 ویں صدارتی انتخابات میں آٹھویں صدر کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالے۔
ایران کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5.9 کروڑ ووٹروں میں سے 2.8 کروڑ نے اپنے حق کا استعمال کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ 47.45 فیصد رہا۔
ان انتخابات میں سخت گیر موقف رکھنے والے ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
تاہم ووٹرز ٹرن آؤٹ بہت کم رہا اور اس کی ایک وجہ ایران میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کہا جا رہا ہے اور شاید ایسا بھی ہو۔ لیکن اس کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ایرانی عوام کا ان انتخابات سے اعتماد اٹھ جانا اور دوسرا ایرانی عوام کا اصلاح پسند موومنٹ سے مایوسی ہے۔
ایرانی عوام کی اکثریت نے ووٹ ڈالنے پر گھر پر رہنے کو ترجیح دی کیونکہ صدارتی انتخابات کے لیے امیدواروں کو اہل قرار دیے جانے کے مرحلے سے ہی ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ انتخابات عوام کے امیدوار کو نہیں بلکہ سخت گیر موقف رکھنے والے اپنی گرفت ملک کو چلانے اور ایرانی عوام کی زندگیوں کے فیصلے کرنے کے حوالے سے اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 600 امیدواروں، بشمول 40 خواتین نے صدارتی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کرائے جن میں سے سخت گیر موقف رکھنے والوں پر مشتمل نگہبان شوریٰ نے صرف سات امیدواروں کو اہل قرار دیا۔ ان سات امیدواروں میں سے بھی تین امیدوار انتخابات سے قبل دستبردار ہو گئے۔
ایران کے جوان ووٹروں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا بلکہ لوگوں کو بھی ترغیب دی کہ وہ ان ’انجینیئرڈ‘ انتخابات کا حصہ نہ بنیں۔
ان کا موقف تھا کہ ووٹنگ سے قبل ہی سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ کون جیتے گا کیونکہ چند امیدواروں کو اس طریقے سے اہل قرار دیا گیا کہ ایک امیدوار کے لیے مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہو گیا۔
وہ عوام جو اصلاحات کے حق میں ہیں کا کہنا ہے کہ آزاد انتخابات میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن جس صورت حال کا اس وقت سامنا ہے عوام کو وہ عوام کے لیے بہت بری ہے۔
ان کے مطابق عوام کو یہ کہا جا رہا ہے کہ گھروں سے نکلیں اور ووٹ دیں جبکہ نگہبان شوریٰ نے پہلے ہی امیدوار منتخب کر لیا ہوا ہے جو ملک کا آٹھواں صدر بنے گا۔
ٹرن آؤٹ کم ہونے کی دوسری وجہ اصلاح پسند تحریک کا آہستہ آہستہ خاتمہ ہے۔ کیا ایران کی عوام اصلاحات نہیں چاہتے اور اسی لیے اس تحریک کا خاتمہ ہو رہا ہے؟
ایسا نہیں ہے کیونکہ اب بھی لوگ اصلاحات چاہتے ہیں لیکن وہ اس بات کی قائل نہیں ہیں کہ اصلاحات ملک میں بتدریج لائی جائیں۔
انہوں نے گذشتہ صدور کے دور میں دیکھ لیا ہے کہ جس صدر نے بھی بتدریج اصلاحات لانے کی کوشش کی ہے ان اقدامات کو سخت گیر موقف رکھنے والوں اور قدامت پسندوں نے سختی سے ختم کر دیا۔
اگرچہ اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہبر اعلیٰ اور نگہبان شوریٰ ہی ہے لیکن اصلاح پسند تحریک کے رہنما بھی اتنے ہی قصوروار ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ مل بیٹھ کر اس بات پر غور کریں کہ کس طرح وہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور ملک میں اصلاحات لا سکتے ہیں وہ اندرونی جنگ میں مصروف ہیں۔
ایران میں اصلاح پسند اور اعتدال پسند کیمپوں میں اندرونی لڑائی نئے تصورات کی نہیں ہے بلکہ اس کی ہے کہ اپنی شکست کے لیے کس کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔
اصلاح پسند تحریک کے پہلے صدر خاتمی تھے اور پھر حسن روحانی۔ لیکن اس بار یہ تحریک کوئی مضبوط امیدوار سامنے لانے میں ناکام رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایران کی عوام کا بھروسہ اصلاح پسندوں سے اٹھ گیا ہے اور اب یہ تحریک عوام کو اپیل نہیں کرتی۔
اصلاح پسند تحریک اب بھی یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ اب بھی سیاسی طور پر ریلیونٹ ہے اور وہ نئی سٹریٹیجی کی بات کرتے ہیں جس سے وہ عوام کے زیادہ قریب ہوں گے۔
لیکن اصلیت یہ ہے کہ نوجوان نسل اب اصلاحات لانے میں حکومتی ناکامی کی بات کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ میں مکمل تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔
عوام کی مایوسی ہو یا اصلاح پسند تحریک کی ناکامی لیکن ایران کے سخت گیر موقف رکھنے والوں کے لیے ان انتخابات میں کم ووٹرز ٹرن آؤٹ یعنی 47.45 فیصد بھی اچھے کی نوید لے کر نہیں آیا۔
ایران کے انقلاب کے بعد پہلا موقع ہے کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ اتنا کم رہا ہے۔ اس سے قبل سب سے کم ووٹرز ٹرن آؤٹ 1993 کے انتخابات میں تھا جب اکبر ہاشمی رفسنجانی دوسری بار صدر منتخب ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایرانی صدارتی انتخابات میں اب تک سب سے زیادہ ووٹرز ٹرن آؤٹ 2009 کے انتخابات میں تھا جب احمدی نژاد دوسری بار انتخابات لڑ رہے تھے۔
اس وقت ٹرن آؤٹ 85 فیصد تھا۔ ان انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے باعث گرین موومنٹ کا آغاز ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے تہران میں پرامن احتجاج کیا۔ 1985 اور 1989 کے علاوہ تمام انتخابات میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد سے زیادہ ہی رہا ہے۔
سخت گیر موقف رکھنے والوں کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں جن میں مقابلہ سخت ہوتا ہے۔
اسی لیے جب رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا تو انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلیں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔
اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کو نا اہل کرنے سے آزاد اور شفاف انتخابات کا تاثر ختم ہو گیا ہے۔ جیسے کہ نگہبان شوریٰ نے پارلیمنٹ کے موجودہ سپیکر علی مطہری اور رکن محمود صادقی ہیں۔ علی مطہری اصلاح پسندوں کی حمایت سے سپیکر منتخب ہوئے اور وہ رہبر اعلیٰ کے پاس اتھارٹی اور طاقت کے ناقد ہیں جب کہ محمود صادقی انسانی حقوق کے حق میں ہیں۔
ایرانی عوام نے ماضی میں الیکشن کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1997 میں اصلاح پسندوں کو حکومت میں لا کر، 2009 میں متنازع الیکشن کے خلاف مظاہروں کی صورت میں اور 2017 میں حسن روحانی کو دوبارہ صدر بنانے کی صورت میں۔ لیکن اب ایران کی عوام نے اپنی طاقت کے مظاہرے کا طریقہ کار بدل لیا ہے۔ انھوں نے انتخابات میں ووٹ نہ ڈال کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور ایرانی حکومت کو بتایا ہے کہ عوام اب بھی اہم ہے، اور اس کے ذریعے انہوں نے سخت گیر موقف رکھنے والوں سے وہ واحد شے بھی چھین لی ہے جس کے ذریعے وہ دنیا میں عوامی حکومت کا ڈھنڈورا بیٹتے تھے۔ نئی ایرانی حکومت کو فی الحال ایران کے اندر سے خطرہ ہے کیونکہ حق سے محروم اور معاشی بدحالی کا شکار ایرانی عوام ایک بار پھر سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔