بحریہ ٹاؤن کراچی گذشتہ چند دنوں سے خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ اس نئی کالونی کے مرکزی دروازے کے سامنے چھ جون کو ہونے والے احتجاج، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ کے الزام میں مقدمات اور گرفتاریوں کے خلاف متاثرین اور سندھی قوم پرست پارٹیوں کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی کا احتجاج اب بھی جاری ہے۔
سندھ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک ریلی کراچی کے گھگھر پھاٹک سے شروع ہوکر ٹھٹھہ اور بدین اضلاع کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی ٹنڈو محمد خان پہنچی تھی۔ یہ ریلی سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے جلال محمود شاہ، جیے سندھ محاذ کے ریاض چانڈیو اور دیگر قوم پرست رہنماؤں کی سربراہی میں نکالی گئی۔
چھ جون کے احتجاج کے بعد گڈاپ پولیس نے ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستان کے جھنڈے کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔
ان مقدمات کے بعد جیے سندھ قومی محاذ کے رہنما صنعان قریشی سمیت سو سے زائد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
سندھ ایکشن کمیٹی میں شامل مختلف قوم پرست جماعتوں کے رہنما مقدمات ختم کرنے، گرفتار افراد کی رہائی سمیت بحریہ ٹاؤن کی جانب سے آس پاس کے گوٹھوں پر مبینہ قبضوں کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا: ’بحریہ ٹاؤن کراچی جس جگہ بنایا گیا ہے وہاں موجود گاؤں صدیوں سے آباد ہیں، مگر وہاں کے مکینوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ہم نے احتجاج کیا تو خود ہنگامہ آرائی کرکے جھوٹے مقدمات بنا کر بےگناہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ہم مقدمات کے خاتمے، گرفتار لوگوں کی رہائی کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مقامی آبادیوں پر قبضہ کو روکا جائے۔‘
چھ جون کو ہونے والا احتجاج اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ بحریہ ٹاؤن کراچی اور گڈاپ ٹاؤن کے اس علاقے میں موجود متعدد گاؤں کے باسیوں کے درمیاں تنازعے کی تاریخ آٹھ سال پرانی ہے جب 2014 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے منصوبے کا آغاز ہوا تھا۔
جغرافیائی اور ریوینیو ریکارڈ کے اعتبار سے بحریہ ٹاؤن کا جائے وقوع
معروف پاکستانی بزنس مین ملک ریاض حسین نے 1997 میں اسلام آباد میں پاکستانی بحریہ کے نام سے ایک تعمیراتی کمپنی بحریہ فاؤنڈیشن قائم کی۔ پاکستان نیوی نے ان کے اس نام پر بار بار اعتراض کیا، مگر تاحال ملک ریاض اسی نام سے کمپنی چلا رہے ہیں۔
بحریہ فاؤنڈیشن نے اسلام آباد کی اشرافیہ اور مڈل کلاس آمدن والے لوگوں کے لیے 2013 میں ’گیٹڈ کمیونٹی‘ کے نام سے نجی رہائشی سکیم شروع کی۔ بعد میں انہوں نے 2014 میں کراچی کا بھی رخ کیا اور تاحال اپنی سب سے بڑی ہاؤسنگ سکیم کی بنیاد رکھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بحریہ ٹاؤن کراچی شہر کے وسط سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر اس شہر کو ملک بھر سے جوڑنے والی مصروف ترین شاہراہ سابق سپر ہائی وے اور موٹروے کی تعمیر کے بعد ایم نائن پر کاٹھوڑ کے پاس گڈاپ ٹاؤن میں واقع ہے۔
کراچی کے کل 18 ٹاؤنز میں گڈاپ ٹاؤن کا رقبہ باقی 17 کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کا علاقہ سندھ کے کیرتھر پہاڑی سلسلے سے متصل ہے اور گڈاپ ٹاؤن کی اس جگہ پر سرحدیں جامشورو اور ٹھٹھہ کے اضلاع سے ملتی ہیں، جہاں بڑے رقبے یا تو ویران ہیں یا پھر ان علاقوں میں پرانی بستیاں آباد ہیں۔
بحریہ ٹاؤں اور محکمہ ریوینیو کے قوانین
دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں تمام زمینوں کی نگرانی کرنے، الاٹمنٹ یا منسوخ کرنے کا سرکاری طور پر ذمہ دار ادارہ محکمہ ریوینیو سندھ ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے محکمہ ریوینیو سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سندھ کی تمام زمینوں کو انتظامی طور پر چھوٹے حصوں میں بانٹا گیا ہے جنہیں سندھی اور اردو زبان میں دیہہ کہا جاتا ہے۔ دیہہ کی جمع سے اردو زبان کا لفظ دیہات بنایا گیا، جس کا مطلب ہے بڑے شہر سے دور ایک گاؤں، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ دیہہ شہروں میں بھی موجود ہیں۔
ریوینیو سندھ کے قانون کے مطابق صوبے کی تمام زمین دیہوں میں بانٹی گئی ہے۔ چند دیہہ مل کر اس سے بڑا انتظامی یونٹ تحصیل بناتے ہیں، چند تحصیلیں مل کر ایک ضلع، چند اضلاع مل کر ڈویژن بناتے ہیں جبکہ ڈویژن مل کر صوبہ بناتے ہیں۔
بورڈ آف ریوینیو کے قانون کے مطابق سندھ میں دیہہ سطح پر زمین کی الاٹمنٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں جن میں سروے زمین، این اے کلاس زمین اور تیسری موروثی زمین شامل ہیں۔
- سروے زمین بورڈ آف ریوینیو الاٹ کرتا ہے۔ اس زمرے میں آنے والی زمین تجارتی اور تعمیراتی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے اور اس زمین کو 99 سالوں کے لیے لیز پر دیا جاتا ہے۔
- نا کلاس (NA Class) زمین وہ ہے جس کا کہیں اندراج نہیں کیا گیا، یعنی ان رجسٹرڈ۔ این اے کلاس زمین کو سرکاری طور پر بلاکس میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر بلاک کا رقبہ 16 ایکڑ ہوتا ہے۔ یہ زمین صرف زرعی مقاصد کے لیے دی جاتی ہے اور اس پر کوئی تجارتی یا تعمیراتی منصوبہ نہیں بن سکتا۔ یہ زمین 30 یا 33 سالوں کی لیز پر دی جاتی ہے۔
- موروثی زمین تیسری قسم کی زمین ہے اور یہ بھی صرف زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
سندھ ریوینیو قانون کے مطابق زمین کی ان تینوں اقسام میں اگر کسی زمین پر کوئی انسانی آبادی یا گوٹھ، قبرستان، تالاب، پانی کی نکاسی کی جگہ یا سڑکیں ہوں تو وہاں کوئی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں یا اسے کسی تجارتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
بحریہ ٹاؤن کراچی سے متصل ایک گاؤں سراج احمد گوٹھ کے رہائشی، عوامی ورکرز پارٹی اور سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے رہنما حفیظ بلوچ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کے دوران ان تمام قوانین کو نظرانداز کیا گیا۔
محکمہ ریوینیو سندھ سے انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق کراچی کے گڈاپ ٹاؤن میں کل 33 دیہہ ہیں، جن میں بحریہ ٹاؤن کراچی تین دیہوں پر بنایا گیا ہے۔ ان میں دیہہ لہگیجی اور دیہہ بولہاڑی کا بڑا حصہ اور دیہہ کاٹھوڑ کا کچھ حصہ شامل ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی وسعت کا اگر اندازہ لگانا ہو تو گوگل ارتھ پر دیکھا جائے تو بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے 18 کلومیٹر اندر تک تعمیرات نظر آتی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق دیہہ بولہاڑی کی کل 14 ہزار672 ایکڑ زمین میں 13 ہزار 36 ایکڑ غیراندراجی زمین (نا کلاس) اور صرف 419 ایکڑ سروے زمین ہے جبکہ 27 ایکڑ پر گھوٹھ (گاؤں)، پونے تین ایکڑ پر قبرستان، پانچ ایکڑ پر تالاب، 36 ایکڑ پر سڑکیں اور 846 ایکڑ پر پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستے بنے ہوئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق دیہہ لہگیجی کی کُل زمین 14 ہزار372 ایکڑ میں سے 12 ہزار 178 ایکڑ ناکلاس زمین اور 1478 ایکڑ سروے زمین ہے، جبکہ اس دیہہ میں 73 ایکڑوں پر گھوٹھ (گاؤں) موجود ہیں۔ سات ایکڑ پر تالاب، 101 ایکڑ پر روڈ اور 830 ایکڑ پر پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستے بنے ہوئے ہیں۔
حفیظ بلوچ کے مطابق بہت سی زمین یہاں کے مقامی لوگوں کی سروے زمین ہے اور ان لوگوں کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔ باقی بغیر اندراج کے زمین بھی صدیوں سے یہاں کے لوگوں کے زیر استعمال رہی ہے۔ یہاں کچھ زمینوں پر مویشیوں کی چراگاہیں تھیں اور باقی زمین پر بارانی کاشت ہوتی تھی۔
بارشوں کے پہاڑوں سے آنے والے پانی پر چھ ماہ تک کاشت کی جاتی تھی۔ ان کے مطابق: ’جو لوگ صدیوں سے آباد ہوں ان کو نکال کر یہاں رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے کیسے تعمیرات کی جا سکتی ہیں؟‘
مقامی لوگوں کی شکایات
بحریہ ٹاؤن کے نزدیک ایک گاؤں نور محمد گوٹھ کے رہائشی اور عرصہ قبل فوت ہو جانے والے اس علاقے میں مزاحمت کے لیے مشہور کردار فیض محمد گبول عرف چچا فیضو گبول کے بیٹے مراد بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا یہ گاؤں میرے چچا نور محمد کے نام پر ہے اور اس کی کل اراضی 24 ایکڑ ہے۔ دباؤ کے باوجود میرے والد نے بحریہ کو زمین بیچنے سے انکار کیا تھا۔ جس جگہ بحریہ ٹاؤن بنا ہے یہ تمام زمینیں مقامی لوگوں کو پولیس کے ذریعے ڈرا دھمکا کر کوڑیوں کے بھاؤ لی گئی ہیں۔‘
حفیظ بلوچ کے مطابق دیہہ لںگیجی، دیہہ بلہاڑی اور کاٹھوڑ میں 16 سے زائد بڑے گاؤں تھے۔ ’ان بڑے گاؤں پر زبردستی قبضہ کر کے 16 میں سے 12 گاؤں مکمل طور بحریہ ٹاؤن میں شامل کیے گئے ہیں۔ باقی بچ جانے والے گاؤں کے بھی چاروں طرف بحریہ کی دیواریں لگی ہیں، انہیں صرف ایک راستہ دیا گیا ہے، تاکہ تنگ آ کر وہ بھی یہاں سے بھاگ جائیں۔‘
کمپیوٹرائزیشن کے لیے سروے تک نہ ہو سکا
2007 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر راولپنڈی میں ہونے والے جان لیوا حملے کے بعد ملک بھر میں پرتشدد ہنگامہ آرائی کے دوران گاڑیوں اور املاک کو آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے ریوینیو ڈپارٹمنٹ کا بھی بہت سارا ریکارڈ جل گیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے صوبے کی تمام زمینوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن 14 سال گزرنے کے باجود کراچی اور ٹھٹھہ کے اضلاع کی زمینیں کمپیوٹرائزڈ نہ ہو سکیں۔ 16 جون کو سپریم کورٹ کراچی بینچ نے اس تاخیر پر صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ تین ماہ میں یہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔
بحریہ ٹاؤن کے ایک بروکر محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کراچی میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہ ہونے کے باعث مالکانہ حقوق والی دستاویزات میں ہیرا پھیری کرنا آسان ہے۔ ’اگر زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو گیا تو ہیرا پھیری مشکل ہو جائے گی۔‘
بحریہ ٹاؤن کا موقف
اکتوبر 2018 میں بحریہ ٹاؤن کی زمینوں کے متعلق کیس کی نظر ثانی درخواست کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کراچی کی 18 ہزار کینال زمین ہے۔
اسی سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے چار دیہات چار ارب روپوں میں خریدے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے خلافِ قواعد زمین کے حصول کے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو سات سال کی مدت میں 460 ارب روپے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی پہلے چار سال تک ڈھائی ارب روپے جمع کرائے گا، باقی تین سالوں کے دوران باقی رقم چار فیصد مارک اپ کے ساتھ جمع کروانا ہو گی۔
اس رپورٹ کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے بحریہ ٹاؤن کراچی کا موقف جاننے کے لیے بارہا کوشش کی مگر ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ بحریہ ٹاؤن کی اپنی ویب سائٹ پر دیے گئے ای میل ایڈریس پر گاؤں کے رہائشیوں کے الزامات پر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے ان کا موقف مانگا گیا۔ دو روز بعد جواب آیا کہ آپ کے سوالات متعلقہ شعبے کو بھیج دیے گئے ہیں اور جلد ہی رابطہ کر کے جواب دیا جائے گا مگر کئی دن گزرنے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔