بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے نزدیک مسلم اکثریت والے لکشدویپ جزیروں کے سکولوں میں اصلاحات کے نام پر مڈڈے میل (دوپہر کے کھانے) میں گوشت پر پابندی عائد کرنے کے متنازع فیصلے کو مقامی افراد نے اپنی ثقافت پر حملہ قرار دیا ہے۔
منگل کو جزیروں کی عمومی طور پر پر امن برادری کی انتظامیہ نے کیرالہ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ یونین ٹیریٹری کے نئے ایڈمنسٹریٹر پرافول کھڈا پٹیل کی جانب سے لکشدویپ میں 22 جون کو لگائے گئے دو احکامات کو کالعدم قرار دے۔
ان احکامات میں سرکاری سکولوں میں پیش کیے جانے والے دوپہر کے کھانے سے گائے کے گوشت اور دیگر گوشت کی اشیا کو ہٹانا اور ڈیری فارموں کی بندش شامل ہیں۔
مقامی افراد نے شکایت کی ہے کہ پٹیل کی یہ پالیسیاں پوری طرح سے مسلم مخالف اور جزیرے کے امن کے لیے ہیں۔ انہوں نے مرکز میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ وفاق کے زیر انتظام ان علاقوں میں ’سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔‘
سابق صوبائی کمشنر اور ’سیو لکشدویپ‘ مہم کے رہنما ڈاکٹر پی کویا نے عرب نیوز سے گفتگو میں سوال اٹھایا کہ ’ان جزیروں میں بجٹ کے تحت بچوں کو سالوں سے ہائی پروٹین اور گوشت پر مشتمل کھانا دیا جا رہا ہے، پھر اب اس پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے۔‘
ڈاکٹر کویا نے وفاقی انتظامیہ پر سائنس کی بجائے مذہبی اور سیاسی بنیاد پر فیصلے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’اس اقدام کے پیچھے کچھ اور ہی مقاصد ہیں۔ کیوں مقامی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ یہ جمہوریت کی توہین ہے۔‘
دوسری جانب انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے گوشت پر پابندی کا جواز پیش کیا کہ جزیروں پر بسنے والے افراد کو زیادہ پھل اور خشک میوہ جات کی ضرورت ہے۔
حکومت نے کیرالہ کو بتایا: ’چونکہ گوشت اور چکن عام طور پر لکشدویپ کے تقریباً تمام خاندانوں میں معمول کے مینیو کا حصہ ہوتا ہے لہذا وفاقی انتظامیہ نے گوشت کی بجائے کھانے میں پھل اور خشک میوہ جات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو جزیرے والے کم کھاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر کویا نے اس استدلال کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’آپ ہائی پروٹین اور گوشت پر مشتمل کھانوں کو پھلوں سے کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ انتظامیہ گائے کے گوشت پر پابندی عائد کرکے اور مقامی آبادی کو مشتعل کرکے حکمران جماعت بی جے پی کے ایجنڈے کو یہاں بھی نافذ کررہی ہے۔‘
لکشدویپ جزیرے وفاق کے زیر انتظام علاقے ہیں، جنہیں مرکزی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ بحیرہ عرب میں 32 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ان 36 جزیروں میں سے صرف 10 جزیرے ہی آباد ہیں۔
ریاست کیرالہ سے 240 کلومیٹر دور ان جزیروں میں 70 ہزار مسلمان آباد ہیں جو یہاں کی کل آبادی کا 95 فیصد سے زیادہ ہیں۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی یہاں کی انتظامیہ کی نگرانی ایک افسر شاہی کے ذریعے کی جاتی رہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت نے گذشتہ سال دسمبر میں پٹیل کو اپنا منتظم مقرر کیا تھا۔
2014 میں مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے پرافول کھڈا پٹیل مغربی بھارتی ریاست گجرات میں مودی کے وزیر داخلہ تھے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے پانچ ماہ کے دوران پٹیل نے کئی متنازع فیصلوں کا اعلان کیا ہے جن سے یہاں کئی تنازعات نے جنم لیا ہے۔
ان فیصلوں میں گائے کو ذبح کرنے اور جزیرے میں گائے کے گوشت کے استعمال پر مجوزہ پابندی بھی شامل ہے۔ مسلم آبادی کو کم کرنے کے لیے ایک مسودہ قانون بھی متعارف کرایا جا رہا ہے جس کے تحت دو سے زیادہ بچوں والے افراد کو بلدیاتی انتخابات لڑنے سے نااہل قرار دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ جنوری میں اینٹی سوشل سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ بھی متعارف کروایا گیا تھا، جس کے تحت کسی بھی شخص کو خفیہ طور پر ایک سال تک حراست میں لیا جاسکتا ہے۔
پٹیل کے دفتر سے ایک اور متنازع تجویز ’لکشدویپ ڈویلپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن 2021‘ ہے جو ایک ایسا مسودہ قانون ہے جس کے تحت ایڈمنسٹریٹر کو منصوبہ بندی یا ترقیاتی سرگرمیوں کے نام پر لوگوں کو ان کی جائیدادوں سے ہٹانے یا منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
ان تجاویز کے نتیجے میں جزیروں پر بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین اصلاحات مسلم اکثریتی خطے پر ’ثقافتی حملہ‘ ہیں۔
لکشدویپ کی سو فیصد آبادی گوشت خور ہے جو نسل در نسل ایسا کرتے آ رہے ہیں۔
کیرالا کے ایک سیاسی تجزیہ کار کے اے شاہ جی نے عرب نیوز کو بتایا: ’یہ ایک ثقافتی حملہ ہے۔ لوگوں کو جبری طور پر گوشت کھانے سے روکنا دائیں بازو کے وسیع ہندو ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔‘
ڈیری فارموں کی بندش پر سوال
کئی تجزیہ کاروں نے ڈیری فارموں کی بندش پر بھی سوال اٹھایا۔
منیکوئے جزیرے سے تعلق رکھنے والے مقامی انتظامیہ کے سابق چیف حسن بودوموکا نے عرب نیوز کو بتایا: ’اس بندش کی واحد وجہ یہ ہے کہ ایڈمنسٹریٹر مقامی لوگوں کی قیمت پر دودھ کی مصنوعات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘
کیرالہ ہائی کورٹ کو جمع کروائے گئے اپنے جوابی بیان میں انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے زیر انتظام دو ڈیری فارموں کو بند کرنا چاہتی ہے کیونکہ انہیں ’نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور صرف کچھ لوگوں کو ہی اس سے فائدہ حاصل ہوتا تھا۔‘
حسن نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ناقص معاشی پالیسی تمام شعبوں کے لیے ہی یکساں مسئلہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق صوبائی کونسلر نے کہا: ’مجھے بتائیں کہ کون سا حکومتی ادارہ منافع میں چل رہا ہے۔ چاہے وہ ریلوے ہو یا سرکاری ایئرلائن یا کوئی اور منصوبے، ان کا مقصد لوگوں کو سہولت فراہم کرنا ہے نہ کہ منافع کمانا۔‘
انہوں نے حکام پر اصلاحات کے نام پر ’پوشیدہ ایجنڈے‘ کو نافذ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔
حسن نے مزید کہا: ’چونکہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور بی جے پی کے اقلیت مخالف ایجنڈے کو ہم سب جانتے ہیں۔ وہ صرف جزیرے کے لوگوں کی قیمت پر اپنی اکثریتی سیاست کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر کویا نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’لوگ ان تبدیلیوں کو چیلنج کریں گے، جس نے جزیروں کی شناخت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جزیروں کی شناخت کا دفاع کرنے کے لیے ہم سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔ ہم اسے بچانے کے لیے پوری طاقت سے لڑیں گے۔‘