اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ ماضی میں ان کے ملک پر ایرانی ساختہ ڈرونز سے حملہ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں ایرانی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت زیادہ خدشات موجود ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے فرید زکریا کو انٹرویو میں شاہ عبداللہ نے کہا کہ ’اردن نے ہمیشہ بات چیت کی حمایت کی ہے۔۔ (لیکن) ہمارے علاقے میں ان معاملات پر جائز خدشات موجود ہیں جن کے بارے میں توقع ہے کہ ان پر امریکی ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی پروگرام سے اسرائیل اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس خلیجی ملک متاثر ہوتے ہیں۔ ایرانی انتظامیہ کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں ڈرامائی بہتری آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عراق میں امریکی اڈوں پر حملے اور سرحد پار سعودی عرب میں یمن سے حملے اس کا ثبوت ہیں۔
شاہ عبداللہ نے کہا: ’شام اورلبنان سے (اسرائیل پر) حملوں میں جو کچھ اسرائیل پر نہیں گرتا وہ کسی حد تک اردن میں گرجاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے ملکوں پر کیے جانے والے سائبرحملوں اور ہماری سرحدو ں پر آگ بجھانے کی کارروائیوں میں تقریباً اتنا ہی اضافہ ہو گیا ہے جتنی تعداد میں وہ اس وقت ہوتے تھے جب ہماری داعش کے خلاف جنگ عروج پر تھی۔‘
شاہ عبداللہ دوم کا کہنا تھا کہ ’اردن کو ڈرون کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایرانی کارروائیاں ہیں جن سے ہم گذشتہ سال کے دوران نمٹتے رہے ہیں۔ یہ کارروائیاں بڑھ چکی ہیں۔‘
آسٹریا کے دارالحکومت میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی مذاکرات جو ایران میں نئی حکومت کے قیام کا عمل مکمل ہونے تک التوا میں ہیں، کے بارے میں شاہ عبد کا کہنا تھا کہ‘مجھے محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے مؤقف میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ان مذاکرات میں اردن ایران کے ساتھ علاقائی خدشات پر بات کرنا اور خلا کو پر کرنے پر بات کرنا پسند کرے گا۔
شاہ عبداللہ اس وقت امریکہ کے دو ہفتے کے دورے پر ہیں جہاں نے گذشتہ ہفتے امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی۔
وہ سال کے شروع میں امریکی صدر کے حلف اٹھانے کے بعد وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے مشرق وسطیٰ سے پہلے رہنما ہیں۔
انہوں نے بائیڈن سے پہلی ملاقات اس وقت کی تھی جب وہ ولی عہد اور بائیڈن سینیٹر تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ عبداللہ کے بقول: ’میں صدر بائیڈن کو اس وقت سے جانتا ہوں جب میں جوان تھا اور میں نے والد کے ساتھ کانگریس کا دورہ کیا۔ اس وقت بائیڈن نوجوان سینیٹر تھے۔ اس طرح ان کے ساتھ پرانی دوستی ہے۔ اور میرا بیٹابھی صدرکو جانتا ہے۔ جب بائیڈن نائب صدر تھے تو میرا بیٹا ان سے ان کے گھر اور دفتر میں ملاقات کیا کرتا تھا۔ لہٰذا یہ خاندانی دوستی ہے۔‘
شاہ عبداللہ نے مزید کہا: ’دنیا کے اس حصے سے پہلے رہنما کے طور پر پیغامات کے عمل کو مضبوط بنانا اہم تھا کیونکہ بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس لیے جنگ کے بعد میرا فلسطینی قیادت کے ساتھ ملنا اہم تھا جو میں نے کیا۔ میں نے نہ صرف فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی بلکہ اسرائیلی جنرل بینی گینٹز کے ساتھ بھی ملا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ11 روزہ جنگ جس نے غزہ کو ہلا کر رکھ دیا پچھلی جنگوں سے مختلف تھی کیونکہ یہ فلسطین اور اسرائیل کے لوگوں کے لیے جاگنے کی کال تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں آئندہ جنگ کہیں زیادہ تباہ کن ہو گی۔
اردن میں بغاوت کے حالیہ مقدمات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ منصوبے میں ملوث لوگوں میں سے ایک ان کے بھائی تھے۔ بعض افراد نے اپنے ایجنڈے پر عمل کے لیے ان کے بھائی کو استعمال کیا۔