صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے محلہ سیٹھیاں میں 13 جولائی کو تین ضعیف العمر بھائی بہنوں کی پراسرار موت کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے پر سات اگست کو نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
تاہم تفتیشی افسر کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ سے موت کا سبب معلوم نہیں ہوسکا اور نہ ہی کسی رشتے دار نے کیس میں دلچسپی لیتے ہوئے کسی پر شک ظاہر کیا ہے۔
13 جولائی کو پیش آنے والے اس واقعے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ 18 دن بعد آئی، جس کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے تھانہ کوتوالی کے حکام گریزاں تھے۔
سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) یوسف خان، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) عبدالرشید خان، ایس پی انویسٹی گیشن کوکب فاروق اور ایس پی سٹی عتیق شاہ نے ہر بار رابطہ کرنے پر پوسٹ مارٹم رپورٹ کے متن سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
رپورٹ موصول ہونے کے پہلے تین دن بعد استفسار پر ایس پی انویسٹی گیشن کوکب فاروق نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کیا تھا کہ انہیں رپورٹ کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں، جب کہ ایس پی سٹی عتیق شاہ نے کہا تھا کہ انہوں نے ابھی رپورٹ کا لفافہ ہی نہیں کھولا۔
تاہم تفتیشی افسر اجمل خان نے پیر (نو اگست) کو خاموشی توڑتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کسی قتل کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے، اس لیے تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک کمزور کیس ہے۔ پوسٹ مارٹم سے ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ قتل تھا، ملزمان نامعلوم ہیں، وقت اور تاریخ نامعلوم ہیں۔ مرنے والوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے جو کیس آگے چلائے، تفتیش تو بہرحال چلتی رہے گی جو کہ ایک وسیع کام ہے اور جس پر کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔‘
واقعے کی تفصیلات
تفصیلات کے مطابق 13 جولائی کی رات پشاور کے قدیم محلہ سیٹھیاں میں تقریباً ساڑھے 11 بجے آصف رضا نامی شخص نے پولیس کو ایک گھر سے بدبو آنے کی اطلاع دی۔ پولیس فوری ایکشن لیتے ہوئے جائے وقوعہ پر پہنچ کر مکان کا مرکزی دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئی جہاں دو عمر رسیدہ خواتین اور ایک ضعیف العمر مرد کی سڑی ہوئی لاشیں الگ الگ کمروں میں پڑی ہوئی تھیں۔
واقعے کی اطلاع پولیس کو دینے والے 35 سالہ آصف رضا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاشیں دو بہنوں کی تھیں، جن کی عمریں لگ بھگ 80، 85 برس جب کہ بھائی کی عمر 75 سال کے قریب تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ محلے کے دیگر بچوں کی طرح ان خواتین سے ٹیوشن لیا کرتے تھے اور بعد ازاں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے کافی عرصہ ان کے ساتھ بھی رہے۔
آصف رضا نے بتایا کہ یہ پانچ بہن بھائیوں کا تعلیم یافتہ گھرانہ تھا جو سب غیر شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے اور جن کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی حیات نہیں تھا۔
’کچھ عرصہ قبل ان کی ایک بہن اور ایک بھائی فوت ہوئے تھے جن کے بعد فیملی کا واحد سہارہ 75 سالہ سرفراز عرف راجہ تھے جو دونوں ضعیف بہنوں سخاوت پروین اور شاہ سلطان کی کفالت کرتےتھے، تاہم ان کی صحت ایسی تھی کہ اکثر کام کاج میں محلے دار یا میں ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔‘
آصف رضا نے بتایا کہ آخری دفعہ سرفراز سے ان کی بات سات جولائی کو ہوئی تھی جب انہوں نے خود ان سے موبائل پر رابطہ کرکے دودھ کا ایک کارٹن لانے کا کہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول آصف: ’میں اپنی ملازمت کی وجہ سے پانچ دن کی تاخیر سے شام کے وقت کارٹن لے کر راجہ بھائی کے گیٹ پر پہنچا، کافی دیر گھنٹی بجانے اور موبائل پر کالز کرنے کے بعد جب کوئی باہر نہ آیا تو میں واپس چلا گیا۔‘
آصف رضا نے بتایا کہ سات جولائی کو جب سرفراز عرف راجہ نے انہیں کال کی تھا تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے سب سے پہلے تینوں کی خیریت دریافت کی تھی، جس کا انہیں تسلی بخش جواب ملا تھا۔
’اسی رات تقریباً 11 بجے مجھے راجہ بھائی کے پڑوسیوں کی کال آئی اور گھر سے بدبو آنے کی شکایت کی۔ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی، میں فوراً پولیس کو اطلاع دیتے ہوئے راجہ بھائی کے گھر کے پاس پہنچا۔‘
آصف رضا نے بتایا کہ یہ واقعہ ان دنوں پیش آیا تھا جب گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہوا تھا اور علاقے میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ بھی رہتی تھی۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ’ان کی موت کی ایک مبینہ وجہ گرمی کی حدت بھی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں کسی ایک کی موت (ممکنہ طور پر سرفراز) دونوں بہنوں کی موت کا سبب بن گئی ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ جس وقت وہ پولیس کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے تو سرفراز عرف راجہ کی لاش فریج کے قریب، شاہ سلطان کی اپنے بستر پر اور سخاوت پروین کی لاش الگ کمرے میں موجود تھی۔
انہوں نے کہا کہ سرفراز کی صحت پچھلے کچھ سالوں میں کافی کمزور ہوچکی تھی، اس کے باوجود وہ بخوشی دونوں بہنوں کی کفالت اور ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔
بقول آصف: ’میں نے کئی بار کہا کہ اب وہ کسی کو مددگار رکھ لیں مگر وہ ہر بار کہتے کہ ان کی بہنوں نے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی وہ ان کی دیکھ بھال کرکے سکون محسوس کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی طرح انہیں کھانا کھلاتے اور ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔‘
مرحومین کے ایک ہمسائے محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرفراز اور ان کے خاندان والے محلے داروں کے ساتھ زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے لیکن محلے دار اکثر ان کے ہاں کھانا بجھواتے اور ان کا سودا سلف لانے میں مدد کرتے تھے۔