عراق کی حکومت نے دارالحکومت بغداد میں جمعے کو مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکت اور کئی لوگوں کے زخمی ہونے کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ طبی اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق مظاہرے کے دوران ایک شخص ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراقی نیوز ایجنسی (آئی این اے) نے رپورٹ کیا کہ وزیر اعظم مصطفےٰ الکاظمی نے ایک کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا ہے جو سکیورٹی فورسز اور اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان جمعے کو ہونے والی جھڑپوں کی تحقیقات کرے گی۔
اس حوالے سے ملک کی مشترکہ آپریشن کمان کا بیان بھی جاری کیا گیا ، تاہم اس میں جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور زخمی مظاہرین کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ایران نواز عسکری تنظیم حشدالشعبی کے سیاسی ونگ کی نسشتوں کی تعداد کم ہوئی ہے جسے گروپ کے حامیوں نے ’دھاندلی‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ جمعے کو تنظیم کے سینکڑوں حامیوں نے بغداد میں سخت سکیورٹی والے گرین زون کے قریب مظاہرہ کیا جہاں امریکی سفارت خانے کے عملے کی رہائش گاہیں، سرکاری اور الیکشن کمیشن کی عمارات واقع ہیں۔
حشد کے وفادار گروپس سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور تین اطراف سے گرین زون کی طرف سے جانے والے راستے بند کر دیے۔ سکیورٹی ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیل دیا اور ہوائی فائرنگ کی۔
روئٹرز کے مطابق مشترکہ آپریشن کمان نے بیان میں کہا ہے کہ کمانڈر انچیف نے واضح احکامات دیے تھے کہ کسی بھی صورت میں فائرنگ نہیں کی جائے گی، اور ان احکامات کو ’نظر انداز کرنے اور ان کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم الکاظمی نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں متاثرہ مظاہرین کو معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا اور فیصلہ کیا ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کی ذاتی طور پر نگرانی کریں گے۔
آئی این اے نے رپورٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم الکاظمی کے احکامات کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی میں پاپولر موبیلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) شامل ہوں گی۔ پی ایم ایف حکومت کی بنائی ہوئی نگران تنظیم ہے جس میں زیادہ تر شیعہ مسلح گروہ شامل جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔
10 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نشستوں سے محرومی کے بعد سرکاری اور فورسز اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والا یہ پہلے بڑا تصادم ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ایران سے منسلک ہیں۔
درجنوں مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور سخت سکیورٹی والے گرین زون کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب ہسپتال ذرائع نے کہا ہے کہ 21 مظاہرین زیادہ دھوئیں کی وجہ سے متاثرہ ہوئے جبکہ نو پولیس اہلکاروں کو پتھر لگے۔
اکتوبر میں عراق کے پارلیمانی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں میں شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی جماعت بھی شامل ہے جو عراق کی سیاست میں ایرانی مداخلت کی کھلی مخالف ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ ملک میں باقی ماندہ مغربی افواج بھی واپس چلی جائیں۔
ایران انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے والی شیعہ جماعتوں کا حامی ہے اور ملک میں ایرانی طرز حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جسے قوم پرست مقتدیٰ الصدر اور بہت سے عام عراقی شیعہ مسترد کرتے ہیں۔
2003 میں امریکی حملے کے نتیجے میں ختم ہونے والی سابق صدر صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عراق میں حکومتی سطح پر شیعہ اکثریت رہی ہے۔ عراق میں سب سے بڑے مذہبی اور نسلی گروپ پارلیمنٹ میں اہم اتحادوں کی قیادت کر رہے ہیں۔