مقامی حکام نے بتایا کہ بدھ کو ایک 60 سالہ آسٹریلوی شخص کو ایک بڑا مگرمچھ دریا میں گھسیٹ کے لے جانے والا تھا مگر حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شہری نے جیب میں پڑے چھوٹے چاقو سے مگرمچھ کے سر میں بار بار وار کرکے خود کو بالآخر بچالیا۔
کوئنز لینڈ کے ریاستی محکمہ ماحولیات نے بتایا کہ آسٹریلیا کے شمالی کیپ یارک جزیرہ میں ایک دور دراز دریا کے کنارے پر ہولناک حملے میں زندہ بچ جانے کے بعد زخمی شخص خود ہی ہسپتال پہنچے۔
گذشتہ ہفتے آسٹریلیوی شہری ہوپ ویل کے قریب اپنے گھر کے قریب مچھلی پکڑنے گئے تھے۔ وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے دریا کے کنارے سے ایک بیل کو بھگا دیا تھا تاکہ وہ اس جگہ پر آرام سے بیٹھ سکیں۔ مگر اس ہی لمحے، اچانک ایک مگرمچھ ان پر حملہ آور ہوگیا۔
محکمہ ماحولیات نے ایک بیان میں کہا: ’مگرمچھ کو دیکھنے کے چند سیکنڈز پہلے کے منظر کو بیان کرتے ہوئے انہوں (شہری) نے بتایا کہ جیسے ہی وہ اپنی فشنگ راڈ ڈالنے والے تھے مگرمچھ ان پر حملہ آور ہو گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جب مگر مچھ ان کو جوتوں سے گھسیٹ کر دریا میں لے جانے لگا توانہوں نے ایک درخت کی شاخ کو پکڑنے کی کوشش کی تاکہ دریا میں نہ گریں لیکن مگرمچھ زورآور ثابت ہوا۔
محکمہ ماحولیات کے بیان کے مطابق: ’اس شخص نے بتایا کہ جب وہ پانی میں داخل ہوئے توانہوں نے اپنی بیلٹ سے چاقو نکال لیا اور مگرمچھ کے سر میں گھونپ دیا یہاں تک کہ مگرمچھ نے انہیں چھوڑ دیا اور جانے دیا۔‘
اس کے بعد وہ ساحل تک پہنچے اور علاج کے لیے کٔک ٹاؤن اسپتال گئے۔ اس واقعے کے بعد ان کو کیرنز پہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ ابھی تک زیر علاج ہیں۔
وائلڈ لائف کے افسران نے جنہوں نے منگل کو زخمی شہری کا انٹرویو کیا تھا تصدیق کی کہ چوٹیں مگرمچھ کے حملے سے ملتی جلتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افسران کے مطابق وہ خطرناک جانور کو پکڑنے کی کوشش نہیں کریں گے جس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے وہ بیل کی موجودگی سے اس علاقے کی طرف راغب ہوا ہے۔
1971 میں ایک محفوظ نسل قرار دیے جانے کے بعد سے کھارے پانی کے مگرمچھوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی ہے حالیہ حملوں نے ان پر قابو پانے کے بارے میں بحث کو دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
یہ مگرمچھ، جو کہ سات میٹر لمبے اور ایک ٹن سے زیادہ وزنی ہو سکتے ہیں وسیع براعظم کے ٹراپیکل شمال میں عام پائے جاتے ہیں۔
’کروک کنٹری‘ کے نام سے پہچانے جانے والے اس علاقے میں نسبتاً کثرت سے حملے ہوتے ہیں لیکن وہ کم ہی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے مقامی لوگوں اورسیاحوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ آبی گزرگاہوں سے اپنا فاصلہ رکھیں۔