آرمی پبلک سکول کے مقدمے کی بدھ کو سماعت اس وقت اہم موڑ پر آگئی جب اٹارنی جنرل آف پاکستان روسٹرم پر گئے اورعدالت کو گذشتہ حکم نامے کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس کے بعد عدالت نے کہا کہ ہم وزیراعظم کو ہی بلا لیتے ہیں وہی آ کر بتائیں گے کہ اعلی عہدوں پر فائز ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ میں طلب کیا۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ کیا حکومت طالبان کے سامنے سرنڈر (ہتھیار ڈال) رہی ہے اور سادھوکی میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر کیا کارروائی کی گئی تو وزیراعظم عمران خان افغانستان کے حالات کے پاکستان پر اثرات کی مثال دیتے رہے۔
عدالت کے اس حکم کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل مچ گئی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید ہدایات لے کر وزیراعظم آفس چلے گئے جبکہ کچھ دیر بعد وزیراعظم کی سکیورٹی کا عملہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گیا جس سے یہ یقین ہوگیا کہ وزیراعظم عدالت میں پیش ہونے والے ہیں۔
بم ڈسپوزل سکواڈ نے بھی چیکنگ شروع کر دی جس سے لگا کہ وزیراعظم کے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ سکیورٹی سٹاف نے آ کر ڈیوٹی سنبھال لی۔ ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کی بڑی تعداد احاطہ عدالت میں پہنچ گئی تھی۔
11 بج کر 35 منٹ پر وزیراعظم ججز کے لیے مختص راستے سے سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے اور اسی راستے سے 11 بج کر 40 منٹ پر کمرہ عدالت پہنچے۔
کمرہ عدالت میں وزیراعظم سے پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید بھی پہنچ چکے تھے جب کہ وزیراعظم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر بحری امور علی زیدی، معاون خصوصی شہباز گل، وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب اور ملٹری سیکرٹری تشریف لائے تھے۔
وزیراعظم روسٹرم کے سامنے موجود پہلی نشت پر براجمان ہو گئے۔ عموماً پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھی وزیراعظم پہلی نشستوں پر ہی تشریف فرما ہوتے تھے۔
وزیراعظم کی پچھلی نشتوں پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور ملٹری سیکرٹری موجود تھے۔ پانچ منٹ وزیراعظم نشست پر موجود رہے اس دوران وہ تسبیح بھی پڑھتے رہے اور پچھلی نشست سے فواد چوہدری اُن کے کان میں سرگوشیاں بھی کرتے رہے۔
11 بج کر 45 منٹ پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وزیراعظم عمران خان کو روسٹرم پر آنے کا کہا۔ وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح تھامے روسٹرم پر گئے۔
سانحہ میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین بھی روسڑم پر چلے گئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ جائیں ان سے بعد میں بات کی جائے گی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم صاحب آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھ لیا؟
اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سانحہ اے پی ایس 2014 میں ہوا، سانحے کی رپورٹ 2019 میں سامنے آئی۔ جن کی ذمہ داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا۔ ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کاحکم دیا تھا ہمیں بتائیں کہ والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟‘
وزیراعظم عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جس دن سانحہ اے پی ایس ہوا کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ میں پشاور پہنچا اور بچوں اوران کے والدین سے ملا۔ ماں باپ سمیت پوری قوم صدمے میں تھی۔ واضع کر دوں کہ جو ازالہ ہم کر سکتے تھے وہ کیا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ان کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیے تھے کیا وہ واپس لا کر دے سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیے تھے، ان کا کیا ہوا؟ آپ اقتدار میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے۔ ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں۔‘
اس کے جواب میں وزیراعظم نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ ’میں واضح کر دوں‘ ابھی وہ اتنا ہی بولے تھے کہ جسٹس قاضی امین نے تیز اور بلند آواز میں کہا کہ ’مسٹر وزیراعظم! ہمیں میڈیا سے پتا چل رہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ انہی مجرموں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے، کیا آپ دوبارہ اُن کے سامنے سرنڈرکر رہے ہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت جو حکومت میں کرتا دھرتا تھے مراعات لے رہے تھے وہ بھی ذمہ دار تھے ہماری ایجنسیز نے کیا کیا؟ کیا ایسا کوئی قدم اُٹھایا گیا جس سے یہ واقعہ روکا جا سکتا تھا؟‘
جسٹس اعجاز نے کہا کہ ’رپورٹ کے مطابق سکول کو دھمکیاں مل چکی تھیں اس لحاظ سے وہاں پہلے سے سکیورٹی موجود ہونی چاہیے تھی۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ حکومت کی نااہلی تھی جو انہیں تخفظ فراہم کرنےمیں ناکام رہی۔'
جب عدالت نے وزیراعظم پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کی تو وزیراعظم ایک ہاتھ سے تسبیح پڑھتے رہے جبکہ چہرہ کسی تاثر کے بالکل سپاٹ تھا اور ججوں کو خاموشی سے سُنتے رہے۔
کئی موقعوں پر انہوں نے زیادہ پراعتمادی ظاہر کرنے کی کوشش بھی کی جس کو ججز کے سوالات نے کم کر دیا تھا۔
وزیراعظم سپاٹ چہرے کے ساتھ ججوں کے ریمارکس سنتے رہے۔ پھر وزیراعظم نے عدالت سے کہا کہ ’آپ مجھے بولنے کا موقع دیں گے تو میں وضاحت کروں گا آپ بات کو سمجھنے کی کوشش تو کریں۔ میں تو تب وزیراعظم نہیں تھا میں نے آن ریکارڈ کہا تھا کہ امریکہ کی جنگ میں نہ گھسیں پاکستان کو نیوٹرل رہنا چاہیے۔ جنرل مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ میں تو تب بھی مخالفت کی تھی کہ یہ بعد میں نقصان دہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’والدین کا دُکھ اپنی جگہ لیکن 80 ہزار لوگ بھی جان سے گئے۔ اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ جسٹس صاحب امریکہ سُپر پاور ہو کر دہشت گردی کی جنگ نہیں لڑ سکا۔ لیکن پاکستان نے وہ جنگ جیتی کیونکہ جب سانحہ اے پی ایس ہوا تو تمام قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے جیت ممکن ہوئی پوری قوم پر اے پی ایس کے سانحے نے سکتہ طاری کر دیا تھا۔‘
اس کے بعد چیف جسٹس نے سادھوکی میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور حکومتی ایکشن پر سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ’حال ہی میں نو پولیس اہلکار شہید ہوئے اپ نے کیا ایکشن لیا کیا کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ ان کی زندگی بھی اتنی ہی اہم تھی جتنی اپ کی اور ہماری۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’چونکہ افغانستان میں صورت حال خراب ہے جس کی وجہ پاکستان میں بھی کچھ واقعات ہوئے اس لیے حکومت نے انٹیلی جنس کی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی بنا دی ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔‘
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’حکومت جتنا کر سکتی ہے اتنا کر رہی ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جب تک افغانستان میں حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے تب تک کچھ مشکل ہوگی۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ افغان صورتحال کی وجہ سے خطرات ہیں۔‘
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’آپ کو پیشگی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے۔ چاہتے ہیں والدین کو تسلی ہو کہ عدالتیں اور حکومت سانحہ اے پی ایس کو نہیں بھولے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ آپ کو ان والدین کا درد ہے جو ہزاروں جوان شہید ہوئے ان کا بھی سوچیں اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس وقت وزیر اعظم آپ ہیں ملک کے ہر معاملے کے بارے میں آپ کو سوچنا ہے ہمیں نہیں۔
وزیراعظم نے عدالت سے کہا کہ ’سر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں رول آف لا پہ یقین رکھتا ہوں۔ کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ آپ حکم کریں میں ایکشن لوں گا۔ میں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا تو انہوں بتایا کہ اس وقت کے عہدے داروں کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ استعفٰی دیتے لیکن یہ قانونی عمل نہیں ہے۔ لیکن عدالت کمیشن بنا کر نام ڈالے میں ایکشن لوں گا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ملک میں قیام امن اور ملک کو دہشت گردی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے آپ کو کسی عدالتی حکم کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارے سامنے پہلے ہی ایک کمیشن کی رپورٹ موجود ہے آپ مزید کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’ملک کے تحفظ کے لیے آپ جوایکشن لینا چاہتے ہیں لیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔‘
40 منٹ کی سماعت کے بعد عدالت نے وزیر اعظم کو بچوں کے والدین سے ملاقات کا حکم دیا اور ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
وزیراعظم کی عدالت میں اچانک طلبی پر جو ہیجان پیدا ہوا وہ بھی چار ہفتوں کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ لیکن عدالت نے بال حکومت کی کورٹ میں پھینک دیا ہے یعنی ابھی معاملہ ختم نہیں ہوا۔