’ہم 65 اور 70 کی دہائی میں مچھ کی کوئلہ کانوں میں کام کرتے تھے۔ اس وقت ایک کان کی گہرائی 300 فٹ تک ہوتی تھی۔ مزدور بھی کم ہوتے تھے۔‘
80 سالہ قادر بخش بتاتے ہیں کہ جب ہم کان سے نکل کر گھر آتے تو ہمارے دانتوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ صاف نہیں ہوتا تھا۔ ہر جگہ کوئلہ لگا ہوتا۔ ’اس وقت بھی کان میں کام کرنے کے دوران جان جانے کا خطرہ رہتا تھا کیوں کہ کسی بھی وقت کان بیٹھ جانے کی صورت میں ہم اندر پھنس کر موت کی آغوش میں جاسکتے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات میں مزدور جان سے گئے۔‘
’کان کی گہرائی 300 فٹ سے اب تین ہزار فٹ تک جا پہنچی ہے لیکن کان میں کام کرنے والا مزدور آج بھی اسی حالت میں ہے، اس کو نہ حفاظتی سامان میسر ہے نہ صحت کی سہولت، اور حادثات میں موت کا خطرہ مزید زیادہ ہوگیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت معاوضہ کم تھا جو اب کئی گنا بڑھ چکا ہے لیکن سہولیات نہیں ہیں۔ ’مزدور کان میں اترتا ہے اپنی مرضی سے لیکن اس کی زندہ سلامت واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘
قادر بخش جیسے کئی مزدور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی کوئلہ کانوں میں کام کرتےہیں جن کو حادثات کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات کا بھی سامنا ہے۔
بلوچستان ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں گزشتہ روز مسلح افراد نے فائرنگ کرکے تین کوئلہ کان کن مزدوروں کو ہلاک کردیا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا ایک فیکٹ فائںڈنگ مشن کوئلہ کانوں کے مزدوروں کے حوالے سے رپورٹ تیار کر رہا ہے جس میں مزدوروں کے مسائل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے رکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات کے حوالےسے انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کے مزدور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
حبیب طاہر کے مطابق ’صوبے میں چھ ہزار سے زائد کانوں کے معائنے کے لیے صرف27انسپکٹر دستیاب ہیں جو ایک تشویشناک بات ہے۔ دوسری جانب کان کنوں کی اکثریت ای او بی آئی اورسماجی تحفظ کے دیگر منصوبوں کے لیے اداروں میں رجسٹرڈ ہی نہیں۔ فیکٹ فائںڈنگ مشن کو لیبر یونین کے نمائندوں نے بتایا کہ وہ کوئلے کے کانوں میں ٹھیکیداری نظام سے شدید ناخوش ہیں کیونکہ انہیں اپنے مزدوروں کی حفاظت وسلامتی کو یقینی بنانے میں بہت کم دلچسپی ہوتی ہے۔‘
پاکستان سینٹرل لیبر فیڈریشن کے مطابق 2021میں ملک بھر میں کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں 176کان کن ہلاک جب کہ 180سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سب سےزیادہ تعداد بلوچستان کی ہے۔ جو 100 سے زائد ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں کان کنوں کو غیر ریاستی عناصر کے اضافے حملوں کا بھی سامنا ہے۔
حبیب طاہر نے بتایا کہ ’ای او بی آئی سے رجسٹریشن نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ کان کن مزدور ملازمت کے فوائد یا پنشن کے مستحق نہیں جس کی بدولت اس وقت وہ انتہائی غیرمحفوظ حالت میں ہیں جب کہ بلوچستان میں مزدور کی ہلاکت پر معاوضہ تین لاکھ روپے ہے، باقی صوبوں میں یہ رقم 5لاکھ روپے ہے۔‘
ہیومن ریسورس کمیشن پاکستان نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ کوئلے کی کانوں کے شعبے کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔ مالکان اور ٹھیکیداروں کو اپنی کانیں مائنز ایکٹ 1923اور بعد ازاں ہونے والے ترامیم کی مطابقت میں چلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کوئلہ کانوں کے حوالے سے قدیم قانون میں ترامیم سازی کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے وہ ممبران اسمبلی سے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ فیڈریشن کے مرکزی کوآرڈنیٹر شوکت علی انجم نے بتایا ممبران اسمبلی کو قانون کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ اس میں ترمیم کی ضرورت ہے جس پرجلد مزید پیش رفت کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں مچھ کے قریب گیشتری کے علاقے میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے دس کان کنوں کو ہلاک کردیا تھا۔
پاکستان ورکرزفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ بھی کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حوالے سے 1923 کے قانون میں ترامیم اور عمل درآمد ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ایک اندازےکے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ مزدور کام کرتے ہیں جہاں کان کنوں کو صحت، حفاظتی سامان نہ ہونے حادثے کی صورت میں کم معاوضہ ملنے کے مسائل کا سامنا ہے وہیں ان کو دہشت گردی اور بھتہ خوری سمیت تاوان کے لیے اغوا کرنے کا بھی خدشہ درپیش ہے۔
پیرمحمد کاکڑ کے مطابق مزدوروں کے حوالے سے مکمل اعداد وشمار حکومت نہ ہی کسی اور ادارے کے پاس ہیں۔ وہاں ان کے حقوق کےلیے قدیم قانون پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے۔ ’یہاں پر سالانہ حادثات میں 250 کے قریب مزدور موت کا شکار ہوتے ہیں، 300 کےقریب زخمی ہوتے ہیں۔ حادثات میں کان کا بیٹھ جانا، گیس کا بھرجانا، آگ لگ جانے کے واقعات ہوتے ہیں۔ فرسودہ طرز کے باعث یہاں کان کنی خطرناک ہوتی جا رہی ہے، اب کان کو سہارا دینے کے لیے استعمال ہونے والی کیکر کی لکڑی کا استعمال بھی بند کردیا گیا ہے۔‘
’جہاں کوئلہ کانوں میں بلوچستان کے مقامی باشندے کام کرتے ہیں۔ وہاں پاکستان کے دیگرعلاقوں کے علاوہ افغان پناہ گزینوں کی بھی بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ ان کے حوالے سےبھی کوئی قانون نہیں ہے۔ جب تک یہ لوگ کما رہے ہیں تو ٹھیک ہے، اگر کوئی حادثہ ہوجائے یا دہشت گردی کا شکار ہوجائیں تو ان کو معاوضہ نہ ہی کچھ اور ملتا ہے۔‘
پاکستان لیبرفیڈریشن کے مائن ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے تجاویز
- ’مائن ایکٹ 1923 کی سیکشن 34 تا 38 میں ترمیم کرکے جرمانے کی رقم کو 20 ہزار تک بڑھایا جائے۔‘
- ’حادثات مقدمات کوفوری نمٹانے کے لیے مائننگ مجسٹریٹ مقرر کرنے اور طبی معائنے کے لیے میڈیکل انپسکٹر تعینات کیاجائے۔‘
- ’مائننگ تین ہزار سے چھ ہزار فٹ گہرائی تک پہنچ گئی ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ حد مقررکی جائے۔‘
- ’حفاظتی آلات چراغ کی جگہ ملٹی ڈی ٹیکٹر استعمال کیے جائیں۔ مائن میں تمام جائے کار ،اطراف اورچھتوں کے ڈیزائن کے حوالے سے ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔‘
- ’کول مائن ریگولیشن 1926 کی دفعات 39 اور 39 اے میں ترمیم کی جائے۔‘
- ’ٹھیکیداراور جوری سر نظام کے رجحان کو ختم کرنے کےلیے سزاؤں کے تعین کے ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔‘
پیرمحمد کاکڑ کے مطابق کوئلہ کان میں کام کرنے والا ایک مزدور عموماً دس سے پندرہ سال تک کام کرسکتا ہے، اس کے بعد وہ ٹی بی، جگر، گردے کی بیماری یا یرقان کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ مزدور بھی اس عمرتک کام اس صورت میں کام کرسکتا ہےا گر وہ حادثات اور دہشت گردی سے بچ جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کمیشن کی تشویش اور لیبرتنظیموں کے تحفظات پر حکومتی موقف جاننے کے لیے صوبہ بلوچستان کے پارلیمانی سیکرٹری برائے مائنز اینڈ منرلز مٹھا خان کاکڑاور محکمہ مائنز اینڈ منرلزکےسیکرٹری سے رابطے کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی جواب دینےسے گریز کیا۔
اس ضمن میں نہ صرف متعدد بار ٹیلی فون کال کیے گئے بلکہ پارلیمانی سیکرٹری کو واٹس ایپ پر سوال بھی بھیجے گئے، اس کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔