فیصل آباد میں خواتین پر تشدد اور مبینہ طور پر برہنہ کیے جانے کی ویڈیو وائرل ہونے پر گذشتہ روز کافی بحث ہوئی اور پانچ ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا، تاہم اس واقعے کی کچھ سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی سامنے آئی ہیں، جن سے بظاہر یہ تاثر مل رہا ہے کہ ان خواتین نے اپنے آپ کو خود بے لباس کیا۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں تفتیش جاری ہے کہ یہ حرکت خواتین نے خود کی یا دکان دار نے اور اگر خواتین نے خود ایسا کیا تو انہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
فیصل آباد کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کپڑے اتارنے کے علاوہ بھی تین جرم ہو چکے تھے۔ ایک ان کو دکان کے اندر ان کی مرضی کے خلاف بند کرنا، انہیں زدوکوب کرنا اور تیسرا ان پر تشدد کرنا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار خواتین ایک دکان میں داخل ہوتی ہیں۔ دکان کے اندر کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کاؤنٹر پر بیٹھا ہے جبکہ خواتین دکان میں گھومنا شروع کر دیتی ہیں۔
ویڈیو کے مطابق ان میں سے ایک خاتون کوئی چیز اٹھاتی ہے جبکہ دوسری خاتون دکان میں پیچھے کی جانب چلی جاتی ہیں جنہیں روکنے کے لیے کاؤنٹر پر بیٹھا شخص ان کی چادر کھینچ لیتا ہے۔ اس کے بعد دکان دار کاؤنٹر سے چھلانگ لگا کر دکان سے باہر بھاگتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین بھی باہر کی جانب بڑھتی ہیں اور جو خاتون دکان کے پچھلے حصے کی طرف گئی تھیں، جب وہ دکان کے دروازے کی جانب آتی ہیں تو ان کی قمیص آگے سے کھلی ہوئی نظر آتی ہے۔
دکان کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں بھی اسی شخص کو تیزی سے دکان سے باہر آتے دیکھا جا سکتا ہے، جو باہر آکر دکان کا دروزہ بند کر دیتا ہے جبکہ دکان کے اندر موجود خواتین دروزہ اندر سے کھولنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ویڈیو کے مطابق باہر موجود دکان دار دیگر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے اشاروں سے بلاتا ہے۔ اس دوران لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور وہ خواتین بھی باہر آ جاتی ہیں، جن کے ساتھ باہر موجود لوگوں کی ہاتھا پائی ہوتی ہے اور خواتین بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان میں سے دو خواتین دور بھاگتی ہیں جبکہ دو وہاں موجود افراد کی گرفت میں آ جاتی ہیں جنہیں وہ زمین پر بٹھا لیتے ہیں۔
اس ویڈیو میں ایک خاتون کے کپڑے پھٹے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جو خود اپنی پھٹی قمیص کو اتار دیتی ہیں اور بعد میں لڑائی جھگڑے کے دوران وہ خود کو بے لباس کر دیتی ہیں۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کے علاوہ جو موبائل ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دکان کے اندر ایک خاتون بیٹھی رو رہی ہیں جبکہ ایک کو گھسیٹ کو اندر لایا جاتا ہے اور وہاں جو شخص انہیں اندر لاتا ہے وہ ان کے ساتھ بدزبانی کر رہا ہے اور انہیں اپنے کپڑے اتارنے کا کہہ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موبائل فوٹیج میں باہر کے مناظر میں دو نیم برہنہ خواتین رو رہی ہیں اور خود کو ایک چادر میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا ہے۔
اس ویڈیو کے حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو نے فیصل آباد کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) ڈاکٹر عمران محمود سے بات کی تو ان کا کہنا تھا: ’اس کیس میں تمام نامزد ملزمان پولیس گرفتار کر چکی ہے اور انہیں بدھ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘
فوٹیج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی یہ تجزیہ کرنا قبل از وقت ہے کہ انہوں نے خود کپڑے اتارے یا نہیں لیکن اس سے پہلے تین جرم ہو چکے تھے۔ ایک ان کو دکان کے اندر ان کی مرضی کے خلاف بند کرنا، انہیں زدوکوب کرنا اور تیسرا ان پر تشدد کرنا۔‘
بقول عمران محمود: ’اس میں دفعہ 354، 147، 149 اور 509 لگی۔ اس کے بعد ایک جرم رہ جاتا ہے کہ کیا انہوں نے کپڑے خود اتارے یا نہیں اور اگر خود اتارے تو کس چیز نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔‘
آر پی او کہتے ہیں کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج کے اندر چونکہ آواز نہیں ہوتی اس لیے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہاں کیا بات ہوئی البتہ جو ویڈیوز موبائل فون سے بنائی گئیں اس میں آواز ہے اور اگر آپ آواز سنیں گے تو شاید اس میں حقیقت کچھ مختلف ہو گی۔ ابھی ہم تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تفتیش کر رہے ہیں، جو جلد مکمل ہو جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فرض کریں کہ وہ خواتین دکان میں چوری کرنے بھی آئی تھیں تو کیا دکاندار کا فرض نہیں تھا کہ وہ پولیس کو اطلاع دیتے۔ یہاں پولیس کو کسی نے اطلاع نہیں دی۔ اس کے باوجود ہم اس کیس کو بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔‘
خواتین کا موقف کیا ہے؟
گذشتہ روز فیصل آباد میں پولیس نے دو خواتین پر چوری کا الزام لگا کر ان پر تشدد اور انہیں بےلباس کرنے کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کر لی تھی۔
تھانہ ملت ٹاؤن فیصل آباد پولیس کے ایس ایچ او رضوان شوکت کے مطابق آسیہ بی بی نامی ایک خاتون نے بتایا تھا کہ وہ اپنی دو ساتھیوں کے ہمراہ کاغذ اٹھانے کا کام کرتی ہیں۔
بقول ایس ایچ او: ’کام کے دوران انہیں پیاس لگی تو وہ سڑک پار ایک الیکٹرانکس کی دکان میں پانی پینے چلی گئیں۔ جب اندر گئیں تو دکاندار نے ان پر چوری کا الزام لگا دیا اور ان پر تشدد شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہاں اور لوگ بھی اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آسیہ بی بی اور ان کی ساتھی کو زبردستی برہنہ کیا، اس کے بعد پہلے دکان میں بند رکھا پھر باہر سڑک پر گھسیٹا۔‘