عراقی فوجی کمانڈرز اور امریکہ کی زیر قیادت غیر ملکی افواج کے اتحاد نے عراق میں جنگی مشن کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ملک میں موجود غیرملکی فوجی تربیتی مشن انجام دیں گے اور صرف مشیر کا کردارادا کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعرات کو اتحاد کے کمانڈر میجر جنرل جان ڈبلیو برینن جونیئر نے ایک بیان میں کہا: ’ہم اپنا جنگی کردار مکمل کر چکے ہیں۔ اب ہم جمہوریہ عراق کی دعوت پر عراقی سکیورٹی فورسز (آئی ایس ایف) کو مشورے دینے، مدد کرنے اور فعال رکھنے کے لیے یہاں موجود رہیں گے۔‘
عراقی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالعامر الشماری نے کہا کہ عراقی فورسز داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا: ’آج ہم اتحاد کے ساتھ اپنی شراکت داری کی تجدید کر رہے ہیں، جو اب ہمارے بہادر فوجیوں کو مشورہ دینے، ان کی مدد کرنے اور انہیں فعال رکھنے کے مشن میں خدمات انجام دیں گے۔‘
مغربی سکیورٹی حکام اور سفارت کاروں کا نجی طور پر کہنا ہے کہ جنگی مشن کے خاتمے سے ملک میں تعینات فوجیوں کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس وقت یہ تعداد دو ہزار سے زائد ہے جب کہ ان فورسز کا گذشتہ دو سالوں سے کسی بھی جنگی کارروائیوں میں عمل دخل محدود رہا ہے۔
عسکریت پسند تنظیم داعش کے عراق اور ہمسایہ ملک شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی قیادت میں اتحاد نے 2014 میں تنظیم کو شکست دینے کے لیے اپنا مشن شروع کیا تھا۔
2017 میں فوجی شکست کے بعد داعش کے جنگجو علاقے پر قبضہ کرنے سے قاصر ہیں لیکن وہ مسلسل چھوٹے حملے کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں دور دراز پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں عراقی فوجی اور عام شہری باقاعدگی سے ہلاک ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اتحاد پر ایران نواز ملیشیا نے درجنوں راکٹ اور ڈرون حملوں بھی کیے ہیں۔ ان ملیشیاؤں نے داعش کو شکست دینے میں اتحاد کی مدد کی تھی مگر اب ان کا کہنا ہے کہ اب مغربی افواج کے عراق میں ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے جولائی میں عراق میں امریکی جنگی مشن کو 2021 کے آخر تک باضابطہ طور پر ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
مغربی سلامتی اور سفارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کو انخلا قرار دینا، جیسے عراقی حکومت کر رہی ہے، گمراہ کن ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عراق میں موجود غیر ملکی افواج کی تعداد میں بہت کم تبدیلی آتی ہے۔
امریکہ نے 2020 سے اب تک عراق میں تقریباً 2500 فوجی رکھے ہوئے ہیں۔ مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ صرف ٹرینر اور مشیر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے اعلیٰ امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ عراق میں موجود 2500 فوجیوں کا جنگی مشن ختم ہونے کے باوجود امریکہ انہیں ملک میں ہی رکھے گا اور اب وہ داعش کے خلاف عراق کی مسلسل جنگ کے لیے فضائی مدد اور دیگر فوجی مدد فراہم کریں گے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو ایک انٹرویو میں میرین جنرل فرینک میکنزی نے کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا تمام مغربی افواج کو عراق سے باہر نکالنا چاہتی ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں امریکی اور عراقیوں پر حملوں میں اضافہ ہوگا تاکہ انہیں باہر نکالا جا سکے۔
جنرل فرینک میکنزی نے کہا: ’ہم نے ان اڈوں سے انخلا کیا ہے جن کی ہمیں ضرورت نہیں تھی، اب ان کے لیے ہم تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے، لیکن عراقی اب بھی چاہتے ہیں کہ ہم وہاں موجود رہیں۔ وہ اب بھی موجودگی چاہتے ہیں، وہ اب بھی ہم سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں، چنانچہ جب تک وہ چاہتے ہیں، ہم وہاں موجود رہیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ داعش کے عسکریت پسند عراق میں خطرہ بنے رہیں گے اور یہ گروہ ’شاید کسی اور نام سے خود کو دوبارہ تخلیق کرتا رہے گا۔‘
انہوں نے کہا: ’اہم بات یہ یقینی بنانا ہوگا کہ داعش دنیا بھر کے دیگر عناصر کے ساتھ مل کر تیزی سے مضبوط اور خطرناک نہ ہو سکے۔‘
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا تھا اور ایک وقت میں سب سے زیادہ، ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد فوجی، ملک میں باغیوں سے لڑ رہے تھے۔ بعد میں وہ عراقی فورسز کو تربیت دینے اور مشورہ دینے کے لیے کام کرتے رہے۔
2011 کے آخر میں تمام امریکی افواج کو واپس بلا لیا گیا تھا لیکن صرف تین سال بعد ہی امریکی فوجی داعش کے خلاف عراق کی مدد کے لیے واپس آ گئے، جو شام سے سرحد پار کرکے ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کر چکی تھی۔