دنیا کے طاقتور ممالک کے بلاک ’گروپ سیون‘ (جی 7) نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملہ کیا تو ماسکو کو اس کے ’بڑے نتائج‘ اور ’بھاری قیمت‘ادا کرنا پڑے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ روس اگلے ماہ یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس میں ایک لاکھ 75 ہزار روسی فوجی شمولیت کریں گے۔
روس نے امریکی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور یہ کہ مغرب ’روسوفوبیا‘ میں مبتلا ہے۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ نیٹو میں توسیع سے روس کو خطرہ لاحق ہے اور یوکرین کی اتحاد میں ممکنہ شمولیت سے اسے دی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی ہو گی۔
برطانیہ کے شہر لیورپول میں اتوار کو جی سیون اجلاس میں بلاک کے مندوبین نے کہا کہ وہ یوکرین کی سرحد کے قریب روس کی فوجی موجودگی کی مذمت میں متحد ہیں۔ اجلاس نے ماسکو سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
روئٹرز نے اجلاس کے مسودہ حاصل کیا ہے جس کے مطابق ’روس کو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یوکرین کے خلاف مزید فوجی جارحیت کے بڑے نتائج برآمد ہوں گے اور اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘
مسودے میں کہا گیا کہ ’ہم یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ ساتھ کسی بھی خود مختار ریاست کے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کے حق کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کی توثیق کرتے ہیں۔‘
ماسکو کا اصرار ہے کہ نیٹو کی جانب سے یوکرین کو گلے لگانا ایک ’سرخ لکیر‘ ہے جسے پار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
روس کو خدشہ ہے کہ یوکرین کی اتحاد میں شمولیت سے نیٹو کے میزائلوں کی اس کے پڑوسی ملک میں تنصیب سے اسے نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیٹو کی توسیع کو روس ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر دیکھتا ہے۔
پوتن نے قانونی طور ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو مشرق میں مزید توسیع نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے ہتھیار روسی سرزمین کے قریب نصب کرے گا۔
دوسری جانب واشنگٹن نے بارہا کہا ہے کہ کوئی بھی ملک یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی امیدوں کو ویٹو نہیں کر سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جی سیون نے مزید کہا کہ ’ہم روس سے کشیدگی کم کرنے، سفارتی ذرائع کا استعمال اور فوجی سرگرمیوں کی شفافیت پر اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
جی سیون نے اپنے اہم اجلاس میں روس کے علاؤہ ایران کے جوہری عزائم پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس نے کہا کہ ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے معاہدے پر اتفاق کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
دنیا کے امیر ترین ممالک کے وزرائے خارجہ نے لیورپول میں دو روزہ اجلاس منعقد کیا جس میں عالمی خطرات کے خلاف ایک مضبوط، متحدہ محاذ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایران کے بارے میں جی سیون کے میزبان ملک برطانیہ نے کہا کہ ویانا میں دوبارہ شروع ہونے والی بات چیت تہران کے لیے ایک سنجیدہ سوچ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کا ’آخری موقع‘ ہے۔
خارجہ سکریٹری لز ٹروس نے اجلاس کے اختتام پر ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ ’ایران کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مذاکرات میں آئے اور اس معاہدے پر اتفاق کرے۔‘
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کے لیے جمعرات کو مذاکرات ویانا میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف سویلین مقاصد کو فروغ دینا چاہتا ہے لیکن مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ اس کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اس سے کہیں زیادہ ہے اور اسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔