مضر صحت سیسہ ملا پٹرول سو سال تک کیسے بکتا رہا؟

1920 کے اوائل میں پیٹرول کے مضر صحت ہونے کی تصدیق ہو جانے کے باوجود کار اور گیس کی صنعت نے اپنی آنکھیں کیوں بند رکھیں؟

پانچ ستمبر، 1937 کو فیول پمپ کی ملازم ڈینورس، میساچوسٹس میں ایک گیس اسٹیشن پر ( اے ایف پی  فائل فوٹو)

نو دسمبر، 1921 کی ایک یخ بستہ صبح اوہائیو کے شہر ڈیٹن میں جنرل موٹرز لیبارٹری کے محققین نے اپنے ٹیسٹ انجنوں میں سے ایک کے اندر ایندھن کا ایک نیا مرکب ڈالا۔

فوری طور پر انجن نے زیادہ خاموشی سے چلنا شروع کر دیا اور زیادہ طاقت پیدا کرنے لگا۔ نیا ایندھن ٹیٹرا ایتھائل لیڈ تھا۔

وسیع منافعے کے پیش نظر اور اس وقت صحت عامہ سے متعلق بہت کم قوانین کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل موٹرز کمپنی نے صحت کو لاحق سیسے کے معروف خطرات کے باوجود ٹیٹرا ایتھائل لیڈ سے پتلا کیا جانے والا پیٹرول مارکیٹ میں فوراً فروخت کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اسے ’ایتھائل‘ گیس کا نام دیا۔

 ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی پیش رفت میں اس اہم دن کو 100 سال بیت چکے ہیں۔ میڈیا اور ماحولیات کے مؤرخ ہونے کے ناطے میں اس سالگرہ کے موقعے پر منافع بخش المیے کو روکنے کے لیے صحت عامہ کے حامیوں اور ماحولیاتی صحافیوں کے کردار کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہتا ہوں۔

سیسہ اور موت

1920 کی دہائی کے اوائل تک سیسے کے خطرات بہت معروف تھے یہاں تک کہ چارلز ڈکنز اور بینجمن فرینکلن سیسے کے زہریلے اثرات سے متعلق لکھ چکے تھے۔

جب جنرل موٹرز نے سیسہ ملا پیٹرول بیچنا شروع کیا تو صحت عامہ کے ماہرین نے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے۔ کسی نے اسے صحت عامہ کے لیے شدید خطرہ قرار دیا اور دوسرے کو ٹیٹرا ایتھائل لیڈ، ’تباہ کن اور رینگنے والا زہر‘ کہا جاتا ہے۔

 جنرل موٹرز اور سٹینڈرڈ آئل نے اکتوبر 1924 میں تباہی کو اپنی نظروں سے دیکھ نہ لینے تک ان وارننگز کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔

نیو جرسی میں بے وے  کے مقام پر واقع ایک ریفائنری میں دو درجن ملازمین جنرل موٹرز کے ناقص انتظامات کی وجہ سے سیسے کے زہریلے اثرات کا شکار ہو گئے۔

پہلے تو وہ بدحواس ہوئے، پھر دیوانگی کو چھوتے غصے سے پھٹ پڑے اور پراسرار قہقہوں میں ڈوب گئے۔

کئیوں کو زنجیروں کی مدد سے پکڑنا پڑا۔ چھ کی موت واقع ہو گئی اور باقی ہسپتال میں داخلے کروانے پڑے۔ اسی دوران امریکہ بھر میں جنرل موٹرز اور ڈوپونٹ پلانٹس پر مزید 11 مزدور ہلاک اور کئی درجن معذور ہو گئے۔

میڈیا سے لڑائی

میڈیا کے ساتھ آٹو اور گیس انڈسٹری کا رویہ شروع سے ہی مخاصمانہ رہا ہے۔

1924 میں ایتھائل تباہی کے بارے میں سٹینڈرڈ آئل کی اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران ایک ترجمان نے اس بات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو مشورہ دیا کہ ’عوامی مفاد کے پیش نظر اس معاملے سے متعلق کوئی بات نہیں کی جانی چاہیے۔‘

اس واقعے کے چند ماہ بعد مزید حقائق سامنے آئے اور 1925 کے موسم بہار تک اخباروں میں اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے اسے صحت عامہ بمقابلہ صنعتی ترقی قرار دیا جانے لگا۔

نیویارک ورلڈ کے مضمون میں ییل یونیورسٹی سے وابستہ گیس کے معاملات کے ماہر ینڈل ہنڈرسن اور جنرل موٹرز کے محقق تھامس مڈگلے سے پوچھا گیا کہ آیا سیسہ ملا پٹرول لوگوں کے لیے زہریلے اثرات کا باعث بنے گا۔

تھامس نے صحت عامہ سے متعلق خدشات کو مذاق میں اڑا دیا اور غلط طور پر اصرار کیا کہ ایندھن کی طاقت بڑھانے کا واحد طریقہ سیسہ ملا پٹرول ہی ہے۔

سیسے والے ایندھن کے منفی اثرات بیان کرتے ہوئے ہینڈرسن نے اندازہ لگایا کہ نیویارک کے ففتھ ایوینو پر ہر سال دھول بھری بارش میں 30 ٹن سیسہ گرے گا۔

میڈیا میں اس معاملے کو اٹھانے پر صنعتی نمائندے برہم تھے۔ جنرل موٹرز کی 1948 کی تعلقات عامہ کی تاریخ میں نیویارک ورلڈ کی کوریج کو ’کمپنی کےٹیٹرا ایتھائیلیٹڈ پٹرول کی عوامی فروخت کے خلاف تشہیری مہم‘ قرار دیا۔

جنرل موٹرز نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ میڈیا نے سیسہ ملی گیس کو ’خطرناک گیس‘ کے نام سے مشہور کر دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود مزدوروں نے اسے یہ نام دیا تھا۔

کسی ضابطے کے تحت لانے کی کوشش

مئی 1925 میں امریکہ کی پبلک ہیلتھ سروس نے جنرل موٹرز، سٹینڈرڈ آئل اور صحت عامہ کے ماہرین سے واشنگٹن میں سیسہ ملے پٹرول پر کھلی کچہری میں پیش ہونے کا کہا۔

جنرل موٹرز اور اسٹینڈرڈ آئل کے مطابق یہ مسئلہ ریفائنری کے حفاظتی انتظامات کا ہے صحت عامہ کا نہیں۔

سٹینڈرڈ آئل کے Frank Howard نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ پٹرول کو پتلا کرنے کے لیے اس میں سیسے کی مقدار ہزار کی نسبت محض ایک ہوتی ہے اور اس لیے کسی عام فرد کے لیے اس میں کوئی خطرہ نہیں۔

صحت عامہ کے ماہرین نے پٹرول میں سیسہ ملانے کی ضرورت پر سوالات اٹھا دیے۔ ہارورڈ سے وابستہ ایک فزیشن  ایلس ہملٹن نے کہا ’پٹرول میں سیسہ ڈالنے سے بہتر ہزاروں دیگر چیزیں موجود ہیں۔‘

ان کی بات درست تھی۔ اس وقت بہت سے متبادل موجود تھے اور کچھ کے جنرل موٹرز نے حقوق بھی حاصل کر رکھے تھے۔ لیکن پریس میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان معلومات تک کیسے رسائی حاصل کی جائے اور پبلک ہیلتھ سروس نے جنرل آٹو اور آئل انڈسٹری کے دباؤ میں آ کر کھلی کچہری کی سماعت کے دوسرے دن ہی اسے منسوخ کر دیا جس میں پیٹرول کے اندر ایتھنول، آئرن کاربونیل اور کیٹیلیٹک ریفارمنگ جیسے محفوظ مواد کے استعمال پر بحث ہونا تھی۔

1926 میں پبلک ہیلتھ سروس نے اعلان کیا کہ ان کے پاس سیسہ ملے پٹرول پر پابندی لگانے کی ’کوئی معقول وجہ‘ نہیں اگرچہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی جانچ پڑتال ’نامکمل‘ تھی۔

سیسہ ملے پٹرول کا عروج و زوال

سیسہ ملے پٹرول نے دنیا بھر میں ایندھن کی منڈیوں پر راج کیا۔ محقیقین نے اندازہ لگایا کہ سیسہ ملا پٹرول استعمال کرنے کی وجہ سے لاکھوں لوگ قبل از وقت موت کا شکار ہو گئے، آئی کیو لیول میں شدید گراوٹ اور بہت سے دیگر سماجی مسائل پیدا ہوئے۔

1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سیسہ ملے پٹرول کی صحت عامہ پر پڑنے والے مضر اثرات کا معاملہ پھر سے ابھر آیا۔

کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جیو کیمسٹ کلئیر کیمرون پیٹرسن کے لیے اپنی لیبارٹری میں سیسے کے آئسوٹوپس کی پیمائش مشکل ہو رہی تھی کیونکہ پٹرول سے خارج ہونے والا سیسہ ہر طرف موجود تھا اور ان کے نمونے مسلسل آلودہ ہو رہے تھے۔

پیٹرسن  نے پہلے اپنی آئسوٹوپ تحقیق جاری رکھنے کے لیے پہلے ’صاف کمرہ‘ تیار کیا لیکن 1965 میں ایک مقالہ بھی شائع کیا اور کہا کہ ’امریکہ کا ایک عام شہری سیسے کے سنگین دائمی مضر اثرات کا شکار‘ ہو رہا ہے۔

1970 کی دہائی میں متوازی طور پر امریکہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات نے فیصلہ کیا کہ سیسہ ملے پٹرول سے بالآخر جان چھڑانی پڑے گی کیونکہ اس نے گاڑیوں میں گیس کی صفائی کے خود کار آلات کو ختم کر دیا ہے اور مزید فضائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ سیسہ ملا پٹرول تیار کرنے والی کمپنیوں نے اعتراض کیا لیکن یہ اعتراضات اپیل کورٹ نے مسترد کر دیئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحت عامہ کے خدشات 1970 اور 1980 کی دہائی میں سر اٹھاتے رہے جب  یونیورسٹی آف پیٹرز برگ سے وابستہ ماہر امراض اطفال ہربرٹ نیڈل مین کی ایسی تحقیقات سامنے آئیں جن میں بچوں کے اندر ذہانت کی کمی اور نشوونما کے دیگر مسائل کا تعلق سیسے کی بڑھتی ہوئی مقدار سے جوڑا گیا۔

پیٹرسن اور نیڈل مین دونوں کو سیسہ انڈسٹری کی جانب سے سخت متعصبانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے مطابق ان کی تحقیق محض فراڈ تھی۔

 بہرحال اس وقت یہ دونوں کھرے ثابت ہو گئے جب 1996 میں امریکہ نے صحت عامہ کو لاحق خطرات کی بنیاد پر سیسہ ملے پٹرول کی فروخت پر پابندی لگا دی۔

اس کے بعد 2000 کی دہائی میں یورپ اور پھر ترقی پذیر ممالک کا نمبر تھا جنہوں نے یہ عمل دہرایا۔ اگست 2021 میں سیسہ ملا پٹرول فروخت کرنے والے آخری ملک الجزائر نے بھی اس پر پابندی عائد کر دی۔

سیسہ ملے پٹرول کی سو سالہ تاریخ نے لاکھوں جانیں لی ہیں اور  نیو اورلینز سے لے کر لندن تک کئی شہروں کی مٹی کو آج تک زہریلا کر رکھا ہے۔

سیسہ ملے پٹرول کی داستان اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب صنعتی منافع پر مبنی فیصلوں کو صحیح طرح سے چیلنج نہ کیا جائے اور ان کے خلاف کڑے قوانین نہ بنائے جائیں تو وہ کس طرح سنگین اور طویل مدتی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت عامہ کے انفرادی رہنماؤں اور صحت و ماحولیاتی مسائل سے متعلق میڈیا کی بھرپور کوریج کی ضرورت ہوتی ہے۔


نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلے ’دی کنورسیشن‘ پر پوسٹ ہو چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات