خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی جانب سے زیادہ تر اضلاع میں شکست دینے کے بعد مختلف تبصرے کیے جارہے ہیں اور مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں کہ پی ٹی آئی کی شکست کے پیچھے آخر محرکات کیا تھے۔
صوبے کے 17 اضلاع میں چھ سو سے زائد تحصیل چیئرمین سمیت ویلج اور نیبر ہڈ کونسل کے لیے انتخابات منعقد کیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق تحصیل چیئرمین کی 64 نشستوں میں سے اب تک 42کا نتیجہ آیا ہے، جس میں جے یو آئی نے 15 نشستیں اپنے نام کی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی نے تحصیل چیئرمین کی 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
پشاور میئر کے انتخابات میں جے یو آئی کے امیدوار زبیر علی کو 10ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہے لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق پشاور کے چھ پولنگ سٹیشنز پر امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے پولنگ روکی گئی، جس پر کمیشن کے فیصلے کے بعد غیر حتمی سرکاری نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔
انتخابات میں دیگر جماعتوں کی پوزیشن پر اگر نظر دوڑائی جائے تو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے تحصیل چیئرمین کی پانچ نشستیں جیتی ہیں، جس میں میئر کی نشستیں بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے تین نشستیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے ایک ایک، آزاد امیداروں نے پانچ اور تحریک اصلاحات پاکستان نے بھی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔
بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ ایک انہونی بات ہے کہ جے یو آئی بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست دے کر ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے تاہم بعض کا خیال ہے کہ جن اضلاع میں جے یو آئی نے نشستیں جیتی ہیں، وہاں پر پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے سے پہلے بھی وہی نشستیں جیتتے تھے۔
اگر ان اضلاع کی بات کی جائے جہاں جے یو آئی نے نشستیں جیتی ہیں، تو ان میں پشاور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں کی سات میں سے چار تحصیلوں پر جے یو آئی جیت چکی ہے جبکہ ایک تحصیل پی ٹی آئی اور ایک پر عوامی نیشنل پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔
پشاور میئر شپ کی نشست بھی اب تک کے نتائج کے مطابق جے یو آئی جیت چکی ہے (غیر حتمی سرکاری نتیجہ ابھی سامنے نہیں آیا ہے)۔
جے یو آئی کے میئر شپ کے امیدوار زبیر علی سابق سینیٹر اور جے یو آئی کے مرکزی رہنما غلام علی کے صاحبزادے ہیں۔ غلام علی سینیٹر سمیت ضلع پشاور کے ناظم بھی رہ چکے ہیں اور ان کا شمار پشاور کی بڑی کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔
پشاور میں ہونے والے گذشتہ بلدیاتی اور عام انتخابات کی کوریج کرنے والے صحافی لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ جے یو آئی نے خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن بعض لوگوں کے لیے یہ بات انہونی ضرور تھی کہ پی ٹی آئی کو اتنے بڑے مارجن سے شکست ہوگی۔‘
انہوں نے کہا: ’لوگوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ جے یو آئی، پی ٹی آئی پر برتری حاصل کرے گی جبکہ جے یو آئی نے جو سیٹیں جیتی ہیں، وہ ان جگہوں سے جیتی ہیں جہاں پر ان کا ووٹ بینک پہلے سے موجود تھا لیکن پی ٹی آئی کے ملکی سیاست میں آنے کے بعد وہ ووٹ بینک خراب ہوا تھا، جو اب دوبارہ جے یو آئی نے حاصل کرلیا۔‘
لحاظ علی اس معاملے میں جے یو آئی کی بہتر ’الیکشن سائنس‘ کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی نے شروع دن سے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے جبکہ باقی اپوزیشن جماعتیں مخمصے کا شکار تھیں، جس میں ہم جماعت اسلامی کی مثال لیتے ہے کہ ان کے کارکنوں کو ابھی تک یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
بقول لحاظ علی: ’جے یو آئی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ جہاں پر مذہبی بنیاد پر امیدوار کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں تھی، وہاں انہوں نے امیدوار کھڑا نہیں کیا، جس طرح انہوں نے پشاور میئر کے لیے زبیر علی کا انتخاب کیا۔ زبیر علی کوئی مولوی نہیں ہیں اور نہ ہی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ کالج اور یونورسٹی میں پڑھے ہیں جبکہ جہاں پر مذہبی شخصیت کی ضرورت تھی تو وہاں پر اسی بنیاد پر ٹکٹ دیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لحاظ نے بتایا کہ جے یو آئی نے جنوبی اضلاع کی زیادہ تر نشستیں جیتی ہیں اور یہ نشستیں وہ پہلے بھی جیتے تھے اور وہاں ان کا باقاعدہ ووٹ بینک موجود ہے۔ اسی طرح چارسدہ جو اے این پی کا گڑ سمجھا جاتا ہے لیکن بظاہر وہاں پر ابتدا سے جے یو آئی انتخابات جیتتی آئی ہے اور وہاں پر ان کا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’بنوں میں چار تحصیل نشستیں جے یو آئی، ایک پی ٹی آئی اور ایک آزاد امیدوار نے جیتی ہے۔ بنوں میں اکرم خان درانی کی وجہ سے جے یو آئی کا باقاعدہ ووٹ بینک موجود ہے۔ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور اب بھی صوبے کی سیاست میں ان کا ایک نام ہے۔‘
ضلع ٹانک کی اگر بات کریں تو ٹانک کی کُل دو تحصیل نشستیں جے یو آئی نے جیتی ہیں۔ یہاں بھی جے یو آئی کا ایک ووٹ بینک موجود ہے۔
ضلع ٹانک سے تعلق رکھنے والے صحافی عصمت شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی امین گنڈاپور اور ان کے بھائی جو صوبائی وزیر بلدیات بھی ہیں، نے ایک اتحاد بنایا تھا کہ کہ جے یو آئی کو شکست دیں گے لیکن جے یو آئی نے اس کے باوجود پی ٹی آئی کو شکست دی۔‘
بقول عصمت شاہ: ’ٹانک کی سیاست میں زیادہ تر عام انتخابات میں آزاد امیدوار جیتے ہیں لیکن اس کے بعد حکومت میں جو جماعت آتی ہے تو اس میں شامل ہوجاتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران بھی آزاد امیدوار جیتے تھے اور اس کے بعد 2008 میں بھی آزاد امیدوار جیتے تھے اور آزاد حیثیت سے اسمبلی میں بیٹھتے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح 2013 میں مصطفیٰ کنڈی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور وہ کامیاب ہوئے تھے، لیکن اب بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کو دونوں تحصیلوں پر کامیابی ملی۔
صوبے کی سیاست میں ضلع مردان کا بھی اہم کردار رہا ہے، جہاں سے اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں۔
مردان کی میئر کی نشست اے این پی کے امیدوار حمایت اللہ مایار جیت چکے ہیں جبکہ پانچ تحصیلوں پر مجموعی طور پر اے این پی نے دو اور جے یو آئی نے تین نشستیں جیتی ہیں۔ حمایت اللہ مایار پہلے بھی ضلعی ناظم رہ چکے ہیں او ر وہاں سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوچکے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی میں امیدواروں پر اختلاف تھا؟
بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کی جیت کی حوالے سے ایک مفروضہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے امیدواروں کے چناؤ میں غلطی کی تھی اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف پی ٹی آئی ہی کے لوگ آزاد حیثیت سے کھڑے ہوگئے، جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بینک خراب ہوا۔
اس حوالے سے لحاظ علی کے مطابق پشاور کی حد تک تو انہوں نے جس امیدوار کو کھڑا کیا تھا وہ دیگر امیدواروں کے مقابلے میں کمزور تھا جبکہ اس پر پارٹی میں اختلافات بھی سامنے آئے تھے، تاہم انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بعض اضلاع میں آزاد امیدواروں اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے موازنے کے بعد اس بیانیے کو تقویت نہیں ملتی کہ پی ٹی آئی کے امیداروں کے خلاف ان کے اپنے لوگ آزاد حیثیت میں کھڑے ہوئے اور اگر ایسا تھا بھی تو انہوں نے اتنے ووٹ لیے کہ وہ جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں سے کم نظر آتے ہیں۔ تاہم کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ چند تحصیلوں میں یہ مسئلہ ضرور تھا۔
اس حوالے سے پشاور کے سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے انڈپینڈنٹ بتایا کہ ’تمام اضلاع میں تو نہیں لیکن کچھ جگہوں پر ایسا ضرور ہوا ہے کہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ آزاد حیثیت میں کھڑے ہوئے، جس میں ایک کوہاٹ کی میئرشپ کی نشست بھی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کوہاٹ میں جے یو آئی کے امیدوار شیر زمان 34 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ جیت چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والے شفیع اللہ جان نے 25 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں اور پی ٹی آئی کے امیدوار نے 15ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
بقول رفعت اللہ: ’کوہاٹ کا مجھے پتہ ہے کہ آزاد حیثیت میں جو امیدوار لڑے ہیں، وہ پی ٹی آئی کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض تھے اور اسی وجہ سے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا، جس کا فائدہ جے یو آئی کو ہوگیا۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ چند ہی جگہوں پر ہوا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ پشاور میں میئر شپ کے امیدوار رضوان بنگش پر پارٹی کارکنان خوش نہیں تھے جبکہ پارٹی کے کچھ منتخب ارکان نے تو کھلم کھلا مخالفت بھی کی تھی۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خان زادہ‘ میں کہا تھا کہ ’پارٹی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہم بلدیاتی انتخابات میں ناکام رہے۔‘
امیدواروں کے ’غلط چناؤ‘ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ غلط امیدواروں کے چناؤ کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اس کی قیمت چکانی پڑی لیکن آئندہ وہ خود ٹکٹوں سمیت دیگر معاملات کی نگرانی کریں گے۔